ETV Bharat / state

Saint Literature Seminar in AMU علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سنت ادبیات پر قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا

author img

By

Published : Mar 22, 2023, 4:55 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat

اس سمینار کی صدارت کرتے ہوئےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ تفریق کو مٹاکر اور اتحاد پیدا کرکے ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جدید ہندوستانی زبانوں کے شعبہ میں مراٹھی سیکشن، پنجابی سیکشن اور اتر پردیش پنجابی اکیڈمی، لکھنؤ کے اشتراک سے 'سنت ادبیات کی قدر، سماجی شعور اور معنویت' کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سنت ادبیات کی قدر، سماجی شعور اور معنویت کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار میں مہمان خصوصی، چانسلر، ہماچل پردیش سنٹرل یونیورسٹی، دھرم شالہ، پدم شری پروفیسر ہرموہندر سنگھ بیدی نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، 'سنت ادبیات مختلف بھارتی افکار کا منفرد مجموعہ ہے۔ ماضی کے بھارت میں جہالت و ناخواندگی کے دور میں صوفی سنتوں نے خود شناسی پر زور دیا۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا، 'ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد تفریق کو مٹاکر اور اتحاد پیدا کرکے قائم کی جاسکتی ہے۔ صوفی سنتوں نے ذات پات اور ادنیٰ و اعلیٰ کی بنیاد پر تفریق کی مخالفت کی ہے۔ مہمان اعزازی پروفیسر ستیش باروے (سابق سربراہ، مراٹھی شعبہ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، چھترپتی سمبھاجی نگر) نے کہا، ''آج عالمگیریت اور مسابقت کے دور میں انسان انسان سے دور ہوتا جا رہا ہے اور اخلاقی اقدار سے انحراف کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں کو صحیح تعلیم دینے کے لیے اخلاقی اقدار اور بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ معروف شاعر پروفیسر موہن جیت سنگھ نے کہا کہ سنت ساہتیہ کے افکار و خیالات آج کے سائنسی دور کے ساتھ ساتھ عصری تناظر میں بہت کارآمد ہیں۔ آج معاشرے میں بہت سے مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ معاشرے میں عدم استحکام، بے یقینی اور عدم تحفظ کا راج ہے، ایسی حالت میں سنتوں کے افکار ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں۔ پروفیسر اویناش اوالگاؤنکر (سابق سربراہ، مراٹھی شعبہ، ساوتری بائی پھولے یونیورسٹی، پونے) نے کہا کہ سنت ادبیات کی سات سو سال پرانی روایت ہے اور اس کے خیالات جدید دور میں بھی لازوال اور موزوں ہیں۔ وہ معاشرے کو ایک نیا نقطہ نظر اور نئی فکر دیتے ہیں، اور معاشرے کو مہذب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اروند نارائن مشرا (رابطہ عامہ افسر، اتر پردیش پنجابی اکیڈمی، حکومت اتر پردیش) نے کہا، 'سنتوں کی لازوال باتیں نہ صرف قرون وسطی میں موزوں تھیں، بلکہ یہ ہندوستانی ثقافت کے ہر دور کے لیے اہم رہیں گی۔ سنتوں کی شاعری ان عقیدت مندوں کے سادہ دل احساس کی صرف ایک مثال ہے جو سب کی بھلائی چاہتے ہیں۔ پروفیسر عارف نذیر (ڈین فیکلٹی آف آرٹس) نے کہا کہ سماجی حالات سے تخلیق ہونے والا ادب سماجی حالات کو بدل دیتا ہے۔ ادب نے معاشرے کو متاثر کیا اور اسے تبدیل کیا ہے۔ سنت ادبیات کی سماجی تبدیلی کی طاقت صرف ایک وقت تک محدود نہیں ہے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: International Conference on Sir Syed جدید سیرت نگاری میں سرسید کی خدمات پر بین الاقوامی کانفرنس
ممتاز پنجابی ادیب اور دہلی یونیورسٹی کے پنجابی شعبہ کے سابق سربراہ پروفیسر منجیت سنگھ نے کہا کہ سنتوں کی تحریک کو صرف مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنا ناانصافی ہو گی کیونکہ اس کے علمبرداروں کا بنیادی مقصد سماجی برائیوں کا خاتمہ تھا۔ ایک نیا ضابطہ اخلاق تمام انسانوں کی سیکولر اور روحانی زندگی کے لیے مفید ہے۔ سیمینار کے دوران اے ایم یو اور دیگر یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے 63 تحقیقی مقالے پیش کیے۔ موسیقی کے سابق استاد، جانی فوسٹر نے اے ایم یو ترانہ کو مراٹھی، پنجابی، کشمیری، ہندی، ملیالم اور بنگالی زبانوں میں پیش کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.