ETV Bharat / state

International Conference on Sir Syed جدید سیرت نگاری میں سرسید کی خدمات پر بین الاقوامی کانفرنس

author img

By

Published : Mar 22, 2023, 12:53 PM IST

سرسید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی جانب سے ”سرسید، جدید سیرت نگاری کے پیش رو“ موضوع پر یک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ملک اور بیرون ممالک کی مشہور شخصیات نے شرکت کی۔International Conference On Sir Syed

جدید سیرت نگاری میں سرسید کی خدمات پر بین الاقوامی کانفرنس
جدید سیرت نگاری میں سرسید کی خدمات پر بین الاقوامی کانفرنس

جدید سیرت نگاری میں سرسید کی خدمات پر بین الاقوامی کانفرنس

علی گڑھ: اترپردیش میں عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سرسید جدید سیرت نگاری کے پیش رو موضوع پر یک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں مقامی اور بیرونی اسکالرز نے سرسید احمد خاں کی تصنیف ’الخطبات الاحمدیہ‘ کے امتیازات کو واضح کرتے ہوئے اسے اردو میں جدید سیرت نگاری کی خشت اوّل سے تعبیر سے کیا۔

اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کانفرنس کی صدارت کی جس میں سیرت اور اسلامی تاریخ کے ممتاز اسکالر پروفیسر کریگ کونسائیڈین (پروفیسر آف اسلامک اسٹڈیز، رائس یونیورسٹی، امریکہ)، پروفیسر اختر الواسع (چیئرمین، خسرو فاؤنڈیشن)، ایران کی المصطفیٰ یونیورسٹی کے نمائندے پروفیسر رضا شاکری، این سی پی یو ایل، نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروفیسر عقیل احمد، پروفیسر اے آر قدوائی (اعزازی ڈائرکٹر، کے اے نظامی سنٹر فار قرآنک اسٹڈیز، اے ایم یو)، پروفیسر توقیر عالم (ڈین، فیکلٹی آف تھیالوجی)، سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی اور ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے اظہار خیال کیا اور موضوع کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

ایران کے پروفیسر رضا شاکری نے افتتاحی کلمات میں کہاکہ تاریخ بشریات، تاریخ تمدن ہند اور اصلاح معاشرہ میں سرسید کی خدمات مثالی ہیں۔ وہ زماں شناس دانشور اور سائنسی مزاج کے حامل بیباک انسان تھے۔ پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ولیم میور کی کتاب کا جواب انھوں نے لندن جاکر تصنیف کیا جس کے لئے انھوں نے اپنا قیمتی اثاثہ فروخت کردیا۔

انھوں نے کہا کہ سرسید کے عملی کارنامے انھیں انقلابی شخصیات کی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ سیرت نبوی پر سرسید کی خدمت انھیں ہمیشہ بلند مقام پر فائز رکھے گی۔پروفیسر شاکری نے ایران میں سیرت نگاری کا ایک جائزہ بھی پیش کیا۔

پروفیسر اختر الواسع نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرسید نے اردو کی سب سے پہلی سیرت کی کتاب ”خطبات احمدیہ“ لکھی، جو اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کے حوالے سے عالم اسلام کی پہلی باضابطہ معروضی تصنیف ہے۔ سرسید نے یہ کتاب لندن میں لکھی اور وہیں سے شائع کرائی۔ پروفیسر آرنلڈ کے بقول یہ کتاب اس اعتبار سے اولیت کا درجہ رکھتی ہے کہ اس نے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب عیسائیت کے گڑھ یعنی یورپ میں دیا تھا۔

وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے صدارتی کلمات میں کہاکہ سرسید کی شخصیت وسیع الجہات تھی۔ وہ ماہر تعلیم، قانون داں، ماہر آثار قدیمہ، صحافی اور مصلح قوم و ملت تھے۔ خطبات احمدیہ سے سیرت پر ان کی تحقیق اور جدید و قدیم مآخذ سے استفادے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

مہمان خصوصی این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر پروفیسر عقیل احمد نے اپنے خطاب میں کہاکہ سرسید سبھی کے لئے باعث تحریک ہیں۔ انھوں نے جدید اردو نثر کی شروعات کی اور جدید سیرت نگاری کی بنا ڈالی۔ خطبات احمدیہ کو جدیدتحقیق کا بھی نمونہ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے مدلل اور منطقی انداز میں سیرت پر لکھا ہے۔ پروفیسر عقیل نے این سی پی یو،ایل کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہر ممکنہ تعاون کی پیشکش بھی کی۔

پروفیسر کریگ کونسائیڈین، پروفیسر آف اسلامک اسٹڈیز، رائس یونیورسٹی نے آن لائن خطاب میں کہاکہ پیغمبر اسلام ؐ نے مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور اخوت کی تعلیم دی اور اسے پوری زندگی اپنایا۔ انھوں نے میثاق مدینہ کا حوالہ دیتے ہوئے مدینہ میں دیگر قبائل و مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے معاملات کا ذکر کیا اور کہا کہ مغرب میں پیغمبر اسلام کو غلط طور سے پیش کیا گیا ہے یا انھیں غلط سمجھا گیا ہے۔

سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید اکیڈمی نے سرسید کی علمی خدمات، ان کے رفقاء اور اکابرین علی گڑھ پر چالیس مونوگراف سمیت متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ کلیات سرسید کی کڑی میں مقالات سرسید شائع کی گئی ہے، جس کی ساتویں جلد خطبات احمدیہ پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کہاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کے بنیادی مآخذ کو اکیڈمی شائع کررہی ہے۔

پروفیسر اختر الواسع نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتایا بانی درسگاہ سرسید احمد خان کی معنویت انکے زمانے کے مقابلے آج زیادہ ہے کیونکہ ان کی تعلیمی بیداری کا مشن آج رنگ دکھا رہا ہے قوم اس سے فیض یاب ہو رہی ہے لیکن ایک یونیورسٹی تمام مسلوں کا حل نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت نے پرائیویٹ یونیورسٹی کی گنجائش پیدا کردی ہے، اسی ہمیں اپنے ان تمام تعلیمی اداروں کو جو برسوں سے کام کر رہے ہیں ان کو پرائیویٹ یونیورسٹی میں تبدیل کرنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھیں:۔Aligarh Muslim University تھائی لینڈ کی سفیر نے اے ایم یو کا دورہ کیا

اختر الواسع نے مثال دیتے ہوئے بتایا اعظم گڑھ کی شبلی کالج کو پرائیویٹ یونیورسٹی کی شکل دی جاسکتی ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے جو کام سر سید نے 1857 میں کیا وہیں کام 1947 کے بعد عبد الحکیم نے کیا اور چھہ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کے ملبے سے جو مسلمانوں کی نفسیات ابھر کر آئی ہیں وہ ہے کہ تعلیم حاصل کرو کیونکہ تعلیم کے بغیر گزارہ نہیں ہے اسی لئے تعلیمی اداروں کی مقدار کے ساتھ معیار کی بھی ضرورت ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.