ETV Bharat / state

Kathalbagan Imambara: کولکاتا کا قدیم ترین کٹھل بگان امام باڑہ، سنی۔شیعہ اتحاد کی علامت

author img

By

Published : Aug 9, 2022, 2:00 PM IST

کولکاتا کے سی آئی ٹی روڈ میں موجود قدیم ترین کٹھل بگان امام باڑہ شعیہ سنی محبت و اتحاد کی علامت کے طور سنہ 1803 سے قائم ہے۔ اس امام باڑہ کے احاطے میں ایک طرف امام باڑہ تو اس سے بغل گیر اہل سنت کی مسجد ہے، جو امام باڑہ کی ہی ملکیت ہے۔ ایک طرف محرم کی مجالس جاری رہتی ہیں تو دوسری طرف پانچ وقت کی نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔ Kolkata Oldest Kathalbagan Imambara is a Symbol of Love and Unity

kolkata oldest kathalbagan imambara is a symbol of love and unity
کولکاتا کی قدیم ترین کٹھل بگان امام باڑہ محبت و اتحاد کی علامت

کولکاتا: کولکاتا شہر اپنے دامن میں کئی گمنام قصے چھپائے ہوئے ہیں یہ قصے ہمیں مذہبی رواداری و محبت و اتحاد کا درس بھی دیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال گذشتہ دو سو سے زائد برسوں سے کولکاتا کے کٹھل بگان سی آئی روڈ میں موجود ہے۔ سی آئی ٹی روڈ میں موجود سراج الدین علی و کرام النساں وقف ملکیت موجود ہے، جس میں ایک امام باڑہ ایک مسجد اور اسی احاطے میں سراج الدین علی خان و قمر النساں بیگم کی اور ان کے اہل خانہ کی قبریں بھی موجود ہیں۔ اس وقف اسٹیٹ کی بنیادسنہ 1803 میں پڑی تھی۔ آج اس کے احاطے میں امام باڑہ مسجد اور ایک چھوٹا خاندانی قبرستان بھی ہے۔ Kolkata Oldest Kathalbagan Imambara is a Symbol of Love and Unity


محرم الحرم کے موقع پر پہلی تاریخ سے ہی اس امام باڑے میں مجالس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو وہیں دوسری جانب اہلسنت مسجد میں پانچ وقت کی نماز بھی جاری رہتی ہیں۔ سراج الدین علی خان کے نبیرہ مصطفی علی مرزا نے ای ٹی وی بھارت کو ایک خصوصی گفتگو کے دوران اس امام باڑے اور مسجد کی روایت کے بارے میں بتایا کہ اس مسجد میں پہلے صرف شعیہ برادری کے لوگ نماز پڑھتے تھے، لیکن جب 1964 میں میں شہر میں بدترین فساد رونما ہوا تو اس امام باڑے اور مسجد پر بھی حملے ہوئے اور امام باڑے کے کئی قیمتی چیزیں لوٹ لی گئی اس کے بعد آس پاس میں شعیہ برادری کی آبادی بہت کم ہو گئی۔ مسجد ویران رہنے لگی تھی تو پھر ہمارے اجداد نے فیصلہ کیاکہ آس پاس میں شعیہ برادری نہیں ہے، لیکن مسجد کا ویران ہونا بہت ہی تکلیف دہ ہے، مسجد آس پاس اہل سنت کی آبادی اچھی خاصی تھی، مسجد ویران نہ رہے اس لیے مسجد کو سب کے لیے کھول دیا گیا اور اس طرح مسجد آباد ہوگئی اور آج ایک ہی آنگن میں امام باڑہ بھی اور ایک مسجد بھی ہے، جس میں ایک طرف اہل سنت نمازیں ادا کرتے ہیں تو دوسری امام باڑے میں محرم کے علاوہ مختلف موقعوں پر مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے کے تقریب میں شرکت کرتے ہیں ایک ہی مسجد میں شعیہ اور سننی نماز ادا کرتے ہیں۔'

ویڈیو


مصطفی علی کے بیٹے سہیل علی مرزا نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ گذشتہ دو سو برسوں سے یہاں مسجد میں نماز اور امام باڑے میں عزاداری کا سلسلہ جاری ہے۔ مسجد اور امام باڑے کی تعمیر ایک ساتھ ہوئی تھی سراج الدین علی خان اور ان کی اہلیہ کرام النساء نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ لیکن جب ملک میں کئی جگہوں پر فسادات ہوئے تو یہاں بھی ہوئے تھے اور حالات ایسے ہوگئے کہ مسجد ویران ہو گئی تو ہمارے اجداد متولیان نے یہ فیصلہ کیاکہ مسجد ویران رہنے سے بہتر ہے کہ لوگوں کو نماز پڑھنے دیا جائے اور اس طرح ہمارے اجداد نے مسجد اہل سنت حضرات کے حوالے کر دیے اور تب سے آج تک یہ یہاں اور اہل سنت حضرات پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ہماری مجالس اور محفلوں میں بھی شریک ہوتے ہیں کوئی اختلاف نہیں ہے، محبت سے ہم لوگ رہتے ہیں۔ اس امام بارے سے 3 محرم کو جلوس نکلتا ہے جس میں شعیہ سننی دونوں شریک ہوتے ہیں اور سب اسی طرح بہتر اور سلامت رہے۔ یہ پوری ملکیت شعیہ وقف ہے اور اس کی پورا رکھ رکھاؤ ہمارے ماتحت میں ہے اس کے متولی میرے دادا مرزا مبارک علی اور چچا مرزا مرتضی علی کے ہاتھ میں مسجد اور امام باڑے سارا نظم و نسق دیکھ بھال ہم لوگ ہی کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری محبت ہے کہ اس مسجد میں ایک زمانے سے اہل سنت حضرات نماز ادا کرتے ہیں اور مجلس میں شرکت کرتے ہیں'۔


اس امام باڑے کی ایک اور تاریخی حیثیت ہے اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب جب پینشن کے سلسلے میں کلکتہ تشریف لائے تھے تو اسی امام باڑے میں پہلے پہنچے تھے، سراج الدین علی خان سے مرزا غالب کی دوستی تھی جس کا ذکر ماہر غالب گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب میں بھی کیا تھا، لیکن قسمت کی خرابی غالب کے آمد سے چھ ماہ قبل سراج الدین علی خان کا انتقال یو چکا تھا غالب نے ان کی اہلیہ کو اپنا خط پڑھ کر سنایا تھا اور دو دن قیام کرنے کے بعد شمالی کلکتہ کے شملہ بازار میں سکونت اختیار کی تھی'۔

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.