ETV Bharat / bharat

عالمی یوم پناہ گزین: انفرادی شراکت اہمیت کا حامل ہے

author img

By

Published : Jun 20, 2020, 8:42 AM IST

Updated : Jun 20, 2020, 2:24 PM IST

عالمی یوم پناہ گزین: انفرادی شراکت اہمیت کا حامل ہے
عالمی یوم پناہ گزین: انفرادی شراکت اہمیت کا حامل ہے

آج عالمی یوم پناہ گزین ہے، اقوام متحدہ کی ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر منٹ میں 20 افراد سب کچھ ترک کرنے پر مجبور ہیں، عالمی یوم پناہ گزین کا مقصد مہاجرین کی حالت زار کی طرف دنیا کی توجہ مرکوز کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے مہاجر ہائی کمیشن (یو این ایچ سی آر) کے مطابق 70 ملین سے زیادہ افراد جنگ، ظلم و ستم، دہشت گردی یا آفات سے بچنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اعدادوشمار کے مطابق سن 2018 میں ہر منٹ میں 25 افراد گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

عالمی یوم پناہ گزین 20 جون کو منایا جاتا ہے، اس کا مقصد دنیا بھر میں مہاجرین کی حالت زار کے طویل مدتی حل کی طرف کام کرنا ہے، عالمی یوم پناہ گزین مہاجرین کے حقوق، ضروریات اور توقعات کو اجاگر کرتا ہے، اس سے سیاسی مدد اور وسائل کو متحرک کرنے میں مدد ملتی ہے، تاکہ مہاجر نہ صرف زندہ رہ سکیں بلکہ ان کی ہمہ جہت ترقی ہوسکے۔

مہاجر بجے
مہاجر بجے

مہاجرین کی جانوں کے تحفظ اور ان کے معیار کو بڑھانے کے لئے ہر ایک دن اہم ہے، عالمی یوم پناہ گزین جیسے عالمی دن مہاجرین کی حالت زار پر عالمی توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتے ہیں، اس دن ایسے بہت سے پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے جو مہاجرین کی مدد کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

عالمی یوم پباہ گزین 1951 کے کنونشن کی 50 ویں سالگرہ کی یاد میں 2001 میں پہلی بار منایا گیا تھا۔

اصل میں یہ 'افریقہ ریفیوجی ڈے' کے نام سے جانا جاتا تھا، دسمبر 2000 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کا نام تبدیل کرکے عالمی یوم پناہ گزین کردیا۔

بنگالی مہاجر
بنگالی مہاجر

رواں برس عالمی یوم پناہ گزین کا موضوع ہے، کوویڈ 19 کی وبا اور حالیہ نسل پرستی کے مظاہروں نے ایک جامع اور مساوی دنیا کے لیے لڑنے کی اہمیت کا ثبوت دیا ہے' ایسی دنیا جہاں کوئی پیچھے نہیں رہ جاتا ہے، سب برابر اور مساوی ہیں، پہلے یہ کبھی بھی اتنا واضح نہیں تھا کہ تبدیلی لانے میں ہم سب کا کردار ہے، ہر شخص اپنی شراکت سے تبدیلی لا سکتا ہے۔

مہاجرین سے متعلق حقائق

  • ہر منٹ میں 20 افراد سب کچھ ترک کرنے پر مجبور ہیں، اس کی وجہ جنگ و جبر یا دہشت گردی ہے۔
  • اعداد وشمار کے 79.5 ملین افراد مجبوری کے تحت اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں، ان مہاجرین میں سے 30-34 ملین افراد کی عمر 18 برس سے کم ہے۔
  • دنیا کی ایک فیصد آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔
  • دنیا کے بے گھر ہونے والے 80 فیصد افراد ان ممالک یا خطوں میں پناہ گزین ہیں جو غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت سے متاثر ہیں۔
  • بے گھر ہونے والے 73 فیصد افراد ہمسایہ ممالک میں رہ رہے ہیں۔
  • دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے 68 فیصد شہریوں کا تعلق صرف پانچ ممالک شام، وینزویلا، افغانستان، جنوبی سوڈان اور میانمار سے ہے۔
  • دنیا میں 4.2 ملین افراد ایسے ہیں جو کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہیں یا بے وطن ہیں۔
  • 4.2 ملین افراد نے دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔
  • سال 2019 میں 26 ممالک میں ایک لاکھ سات ہزار 800 افراد کو بازآباد کیا گیا تھا۔
  • کم وبیش 45.7 ملین افراد داخلی طور پر بے گھر ہوچکے ہیں (اپنے ہی ممالک میں)
  • پناہ گزینوں میں سے تقریبا 70 فیصد خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

سب سے زیادہ متاثرہ ممالک

  • شام- 6.6 ملین
  • وینزویلا- 4.4 ملین
  • افغانستان۔ تین میلن
  • جنوبی سوڈان- 2.2 ملین
  • میانمار- 1.1 ملین
  • صومالیہ- 0.9 ملین
  • کانگو- 0.8 ملین
  • سوڈان- 0.7 ملین
  • عراق- 0.6 ملین
  • وسطی افریقی جمہوریہ- 0.6 ملین

بھارت اور 1951 کا کنونشن

یو این ایچ سی آر کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں دو لاکھ مہاجرین ہیں، یہ مہاجرین میانمار، افغانستان، صومالیہ، تبت، سری لنکا، پاکستان، فلسطین اور برما جیسے ممالک سے ہجرت کر کے بھارت آئے ہیں۔

یو این ایچ سی آر نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے بھارت کی تعریف کی اور کہا کہ یہ دیگر ممالک کے لیے ایک نمونہ ہے، تاہم بھارت سن 1951 کے مہاجر کنونشن کا حصہ نہیں ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد، کنونشن کی پہلی بار اقوام متحدہ کے ارکان کے لیے تجویز کی گئی تھی، اس وقت بھارت نے اسے سرد جنگ کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا تھا۔

سن 1953 میں بھارت کے دفتر خارجہ نے (آر کے نہرو کے ذریعہ) اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کے دفتر کو بتایا کہ عالمی مہاجرین کی پالیسی سرد جنگ کا حصہ ہے، سن 1951 کے کنونشن میں 1967 کے پروٹوکول کے ذریعے ترمیم کی گئی تھی۔

آزادی کے بعد بھارت نے غیر جانبدار رہنے کی نیت سے کنونشن پر دستخط نہیں کیا، بھارت نے اس کی کوئی سرکاری وجہ نہیں بتائی ہے، اس کی ایک ممکنہ وجہ کنونشن میں لفظ 'مہاجر' کی تعریف ہوسکتی ہے۔

رہنگیا مہاجر
رہنگیا مہاجر

بھارت میں مہاجر

تبتی پناہ گزین۔ سن 1959 میں آزادی کے بعد مہاجرین کی ایک بڑی تعداد تبت سے بھارت پہنچی، ان میں دلائی لامہ اور ان کے ایک لاکھ پیروکار شامل تھے، بھارت نے انہیں سیاسی پناہ دی، انسانی بنیادوں پر انہیں پناہ دینا بھارتی حکومت کے لیے مہنگا ثابت ہوا، اور نتیجتا چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات بگڑ گئے۔

تبتی پناہ گزین شمالی اور شمال مشرقی بھارتی ریاستوں میں آباد ہوئے، تبت برادری کے روحانی اور سیاسی رہنما دلائی لامہ کو ہماچل پردیش کے دھرم شالا میں جگہ دی گئی، اب تک تبت کی جلاوطنی حکومت وہاں سے چل رہی ہے۔

بنگالی پناہ گزین- اگلے بڑے پناہ گزین کا جتھہ بنگلہ دیش سے جنگ آزادی کے دوران 1971 میں آیا تھا، اس دوران لاکھوں مہاجرین بنگلہ دیش سے ہجرت کرگئے، اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے متصل ریاستوں میں آبادی میں اچانک اضافہ ہوا اور بھارتی حکومت کے لیے خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا مشکل ہوگیا۔

ایک تخمینے کے مطابق سن 1971 میں 10 لاکھ سے زائد بنگلہ دیشی مہاجرین نے بھارت میں پناہ لی، مقامی برادریوں اور بنگلہ دیشی مہاجرین کے مابین اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، جھڑپیں اکثر پرتشدد شکل اختیار کرتی ہیں، آسام، تریپورہ اور منی پور میں یہ سب سے زیادہ آباد ہیں۔

مقامی برادریوں اور قبائلی گروپوں نے الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش سے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے مسلسل بہاؤ کی وجہ سے اس خطے کی سماجی آبادی تبدیل ہوگئی ہے، اس کی وجہ سے مقامی لوگ اقلیت بن گئے ہیں، آسام میں سن 2012 میں کوکراجہار فسادات کے پیچھے یہ ایک بنیادی وجہ تھی جس میں 80 سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

مہاجرین
مہاجرین

سری لنکا کے تمل مہاجرین۔ سری لنکا سے زیادہ تر مہاجرین ریاست تمل ناڈو میں آباد ہوئے، کیونکہ یہ سری لنکا کے قریب ہے، ان کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے، سن 1983 سے 1987 کے درمیان سری لنکا کے 1.34 لاکھ تمل مہاجرین بھارت آئے تھے، اس کے بعد مزید تین مراحل میں مہاجرین بھارت آئے، خانہ جنگی کی وجہ سے سری لنکا سے فرار ہونے والے افراد نے بھارت میں پناہ لی، تمل ناڈو میں 109 کیمپوں میں 60 ہزار سے زیادہ مہاجرین پناہ گزین ہیں۔

افغان مہاجر۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد بہت سے افغانوں نے بھارت کا رخ کیا اور یہاں پناہ لی، افغان مہاجرین کے چھوٹے گروپ آنے والے برسوں میں بھی بھارت کا دورہ کرتے رہے، یہ لوگ دہلی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں رہ رہے ہیں، یو این ایچ سی آر کی ویب سائٹ کے مطابق سن 1990 کی دہائی کے اوائل میں بھارت آنے والے بہت سے ہندو اور سکھ افغانوں کو گذشتہ دہائی میں شہریت دی جاچکی ہے، یو این ایچ سی آر اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کے مطابق دو لاکھ افغان مہاجرین بھارت میں مقیم ہیں۔

روہنگیا مسلمان۔ سن 2017 میں 40 ہزار روہنگیا مسلمان میانمار سے بھارت آئے تھے، یو این ایچ سی آر کے دفتر نے بھارت میں تقریبا 16ہزار500 روہنگیا کے شناختی کارڈ جاری کیے ہیں، اس سے مہاجرین کو ظلم و ستم، گرفتاری اور ملک بدری روکنے میں مدد ملتی ہے، تاہم بھارت روہنگیاؤں کو غیر قانونی تارکین وطن اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

حکومت ہند نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کو اپنے آبائی وطن واپس جانے پر مجبور نہیں کرنے کے قانون کا اطلاق بھارت پر نہیں ہوتا، کیونکہ یہ سن 1951 کے مہاجرین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے، بھارتی حکومت نے میانمار سے روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس لینے کی اپیل کی ہے۔

چکما اور ہاجونگ کمیونٹیز- بہت ساری کمیونٹیاں جو چٹگاؤں کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہے، پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے بھارت میں مہاجر کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق شمال مشرق اور مغربی بنگال سے ہے، چٹگاوں کے زیادہ تر پہاڑی علاقے بنگلہ دیش میں واقع ہیں، سن 2011 کی مردم شماری کے مطابق اروناچل پردیش میں 47 ہزار 471 چکما رہ رہے ہیں، سن 2015 میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو چکما اور ہاونگ برادری کے لوگوں کو شہریت دینے کا حکم دیا، گذشتہ برس حکومت نے انہیں شہریت دینے کا فیصلہ کیا تھا، حالانکہ بہت سارے گروپوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔

کورونا وائرس اور مہاجر

کوڈ ۔19 کی وبا نے مہاجرین کے ساتھ ساتھ سیاسی پناہ کے نظام کو بھی متاثر کیا ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک نے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں، مارچ 2020 میں یوروپی یونین میں پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں فروری کے مقابلے میں 43 فیصد کمی واقع ہوئی۔

دنیا کے دوسرے حصوں میں مہاجرین کی رجسٹریشن میں بڑی رکاوٹیں آئیں، اس کی وجہ سے اس وبا سے متاثرہ مہاجرین کے صحیح اعداد و شمار کا پتہ لگانا مشکل ہے۔

Last Updated :Jun 20, 2020, 2:24 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.