ETV Bharat / state

Seminar on Interfaith Studies: 'ہمیں انسانیت کو ترجیح دینی چاہیے، مذہب کا مقام الگ ہے'

author img

By

Published : Mar 16, 2022, 5:56 PM IST

seminar on interfaith studies in mughal
'ہمیں انسانیت کو ترجیح دینی چاہیے، مذہب کا مقام الگ ہے'

مغلیہ دور میں بین المذاہب مطالعات پر منعقدہ سیمینارخطاب کرتے ہوئے اے ایم یووی سی پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ' مغل بادشاہ اکبرنے مذہبی رواداری اور بین المذاہب علوم کی پالیسی کو اختیار کیا جو اپنے عہد میں پوری دنیا میں ایک منفرد بات تھی۔ Seminar on Interfaith Studies in AMU

نامور مورخ، ترقی پسند دانشور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ تاریخ کے نامور مؤرخ پروفیسر ایمریٹس عرفان حبیب نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے مغلیہ دور میں مذہبی مکالمات کی تصویریں پیش کیں۔ وہ سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی، شعبہ تاریخ، اے ایم یو کے زیر اہتمام تین روزہ بین الاقوامی سیمینار کی افتتاحی اجلاس میں 'اکبر سے دارا شکوہ تک بین المذاہب مکالمے کا عظیم دور پر' بنیادی متون کا ایک جائزہ' کے موضوع پر خطاب کیے۔ Seminar on Interfaith Studies in AMU

ویڈیو
مغلیہ دور میں بین المذاہب مطالعات پر سیمینار میں پروفیسر عرفان حبیب نے مغل دور میں مکالمات کے طریقوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہاکہ "مغل شہنشاہ اکبر کا دور ہم آہنگی کی علامت تھا جس کی مثال دوسرے ادوار میں بہت کم ملتے ہیں۔ وہ متجسس، کھلے اور عملی ذہن کا انسان تھا اور اس نے باقاعدہ حکومتی سر پرستی میں ہونے والے بین المذاہب عوامی مکالمے کی ہر طرح سے حمایت کی، جس کے باعث سبھی مذاہب- ہندو مسلمان، یہودی، پارسی، چین اور یہاں تک کے ملحد بھی ایک ساتھ جمع ہوئے"۔پروفیسر عرفان حبیب نے بین المذاہب مکالمہ پر کہاکہ' اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اعلان کیاکہ تھا کہ ان کا واحد مقصد ہندو، مسلمان سمیت کسی بھی مذہب کے حقائق کو منظر عام پر لانا ہے اور ہندو برہمنوں کے ساتھ ان مکالموں اور ذاتی میل جول کی وجہ سے انہوں نے ہندو فکر کے مختلف مکاتب فکر کا گہرا علم حاصل کیا'۔ انہوں نے کہا "اکبر کے زمانے میں بین المذاہب تعامل سب سے زیادہ اس کے دور میں مکتب خانہ میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تصنیفی اور ترجمہ کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ مغل بادشاہ کا سنسکرت ادبیات کے ساتھ پہلا سابقہ اس کے دور حکومت کے اوائل میں ہی ہو گیا، چنانچہ مغل دربار میں ہندو برہمن اور جین مستقل موجود رہتے تھے۔ اس کی ایک خاص کوشش یہ تھی کہ ہندوؤں کے قدیم ترین صحیفوں میں سے ایک اتھروید کا فارسی میں ترجمہ کیا جائے۔ جس سے ترجمے کی سرگرمیوں کو تقویت ملی اور دو عظیم رزمیہ کتب- مہارت اور رامائن کے فارسی تراجم سامنے آئے۔'پروفیسر عرفان حبیب نے واضح کیاکہ یورپ کو اپنشدوں کے بارے میں علم فارسی تراجم سے ہوا جو غیر معمولی طور پر ذہین اور پڑھے لکھے مغل شہزادے داراشکوہ نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا داراشکوہ نے اپنی اپنشدوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ انہیں ہندوستان اور دیگر جگہوں کے مذہبی اسکالر پڑھ سکیں۔ ان کی دیگر مشہور تصانیف میں مجمع البحرین شامل ہیں جو تصوف اور ویدانت کے فلسفے کے درمیان وابستگی اور تعلق کے انکشاف کے لیے وقف ہے۔ درحقیقت، مغلوں نے ثقافتی پیشرفت کے لیے ایک بڑی راہ نکالی۔ مغل دور کے مہا بھارت اور رامائن کے فارسی ترجمے انگریزوں کو عربوں کے ذریعے ملے جن کے لیے ان کا انگریزی میں ترجمہ کرنا آسان تھا۔ یہاں تک کہ شہنشاہ جہانگیر بھی ان کو 'تصوف کے سائنس' سمجھتا تھا۔'سمینار کے شرکاء کے نام ایک خصوصی پیغام میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ' مغل بادشاہ اکبر نے مذہبی رواداری اور بین المذاہب علوم کی پالیسی کو اختیار کیا جو اپنے عہد میں پوری دنیا میں ایک منفرد بات تھی۔ ان کے پرپوتے شہزادہ داراشکوہ نے 50 برس سے زیادہ اپنشدوں کو فارسی میں پیش کرکے ان شاندار فلسفیانہ تحریروں سے غیر ہندوستانی علمی دنیا کو متعارف کرایا، اور اس کے فارسی ترجمے کا لاطینی ترجمہ ہوا۔ اس طرح یہ کتاب یورپ پہنچی۔' پروفیسر منصور نے مزید کہاکہ "مجھے یقین ہے کہ سنٹر آف ایڈوانسڑ اسٹڈیز اسٹڈی، شعبہ تاریخ کی یہ کوشش بھارت میں چار سو برس قبل شروع کیے گئے بین المذاہب کے افہام و تفہیم کے منصوبے کے علم میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی، جس سے نہ صرف ماضی کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ ہوگا، بلکہ موجودہ وقت میں بھی باہمی افہام و تفہیم کی فضا بہتر ہوگی"۔پروفیسر کے اے ایس ایم عشرت عالم نے افتتاحی تقریب میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور سیمینار کے موضوع کا تعارف کرایا۔


سمینار کے پہلے دن پروفیسر سید علی ندیم ریضاوی اور پروفیسر اطہر علی خان نے بالترتیب پہلے اور دوسرے سیشن کی صدارت کی۔'

پروفیسر عرفان حبیب نے سیکولرزم کے معنی بتاتے ہوئے کہاکہ ملک کے آئین میں بھی سیکولرزم ہے، سیکولرز کے معنی ہوتے ہیں 'جو مذاہب کہتے ہیں آپ اس پر مت جائے بلکہ یہ دیکھئے انسان کو کس سے فائدہ ہوتا ہے'۔ آج کل ہمیں انسانیت کی بات کرنی چاہیے مذاہب اپنی جگہ ہے، موجودہ صورتحال بہت الگ ہے، مغل دور میں بھی یہ دیکھا کرتے تھے کہ مذاہب الگ الگ ہے وہ الگ الگ بات کرتے ہیں، تو وہ مذاہب کے درمیان ایک ایسی چیز تلاش کرتے تھے جو سب میں مل جائے، سب کے لیے ایک ہو۔'

مغل دور میں ان کے لیے ایک بہتر طریقہ یہی تھا کہ الگ الگ مذہب والے ایک دوسرے کی بات سمجھے اور ان میں دوستی رہے۔ آج کل تو ہے جو ہمارا آئین ہے، سیکولرازم کی بات کرنی چاہیے، جس میں سب کا فائدہ ہو۔'

سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر عرفان حبیب نے کہا ہمارے ملک میں سیکولرزم کی ضرورت ہے بین المذاہب کی تو کوئی خاص ضرورت نہیں، کیوں کہ اگر یہ بات کہتا ہے کہ تمام مذاہب ایک بات کہتی ہیں تو ایسا نہیں ہے، مذاہب الگ بات کرتے ہیں یہ تو اکبر اور دارا شکوہ کے زمانے میں بھی یہ کوشش کی گئی کے سب مذاہب ایک بات کرتے ہیں لیکن یہ ہو نہیں پایا مین اپنے خطاب میں بھی یہی بات کہیں تھی۔

بین المذاہب مکالمے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ تمام مذاہب ایک بات نہیں کرتی، بلکہ بین المذاہب مکالمے تو اس لیے ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ دوسرے مذہب کے لوگ کیا بات کرتے ہیں، جہاں تک آج کی بات ہے تو موجودہ صورتحال میں ہمیں سیکولرزم کو دیکھنا چاہئے، اس دور میں انسان کا کس چیز سے فائدہ ہونا چاہیے۔'

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.