دہلی: ریاست ہریانہ کے صرف نوح ضلع میں فساد نہیں ہوا، بلکہ یہ فساد کئی قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا۔ اس درمیان مسلمانوں کی جائیدادوں، عبادت گاہوں اور جان و مال پر بھی حملہ ہوا، اس دوران 14 مساجد میں آگ زنی کی گئی۔ لیکن جب گرفتاری کا وقت آیا تو یکطرفہ طور پر مسلمانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، اب تک 300 افراد گرفتار ہوئے ہیں، ان میں 294 مسلمان ہیں، جو انتظامیہ کی طرف سے عصبیت کا مظہر ہے۔
ان حالات کا باضابطہ جائزہ لینے کے لیے آج جمعیۃ علماء ہند کے ایک اعلی سطحی وفد نے میوات کا دورہ کیا اور جمعیۃ کی طرف سے ایک ماہ سے جاری ریلیف و بازآبادکاری کا جائزہ لیا۔ دریں اثناء گذشتہ شام نوح میں جمعیۃ علماء ہند کے قانونی امور کے ذمہ دار مولانا نیاز احمد فاروقی کی سرپرستی میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی اور دیگر ذمہ دار موجود تھے۔ میٹنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر لوگ جو گرفتار ہوئے ہیں، وہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا فساد سے کچھ لینا دینا بھی نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کے سلسلے میں مولانا نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ ہمارے پاس 84 درخواستیں آئی ہیں جبکہ میوات میں 300 کے قریب افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ ملک کے آئین کے مطابق ان کی قانونی مدد بھی کی جائے گی۔ ہم شرپسندوں کی گرفتاری کے خلاف نہیں ہیں، لیکن یکطرفہ کارروائی امتیاز کی علامتوں کو ظاہر کرتی ہے اور ایک طبقہ میں بے اطمینانی پیدا کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میوات میں 14 مسجدوں پر بھی حملہ ہوا ہے، ان کے مجرمین کہاں ہیں اور ان کی اب تک گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ سرکار اور انتظامیہ کو اس کا جواب دینا چاہیے۔