ریاست بہار کے ضلع گیا میں واقع اقلیتی ادارہ مرزا غالب کالج کے ہندی - اردو شعبے کے اشتراک سے آزادی کا امرت مہوتسو اور ہندی و اردو ادب پر لکچر کا اہتمام کیا گیا، جس میں پروفسیر شجاعت علی خان نے نہ صرف اردو ہندی بلکہ انگریزی زبان کے بھی ادیبوں کی خدمات کا جائزہ کیا اور انہوں نے ملک کے موجودہ حالات اورصورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔
پروفسیر شجاعت علی خان نے کہاکہ آج کا بھارت، وہ بھارت نہیں ہے جس بھارت کو ہمارے اکابرین نے بنایا تھا، جہاں مذہبی علاقائی اور زبانی نفرت وتشدد کی کوئی جگہ نہیں رکھی تھی۔ امن پیار و محبت مشترکہ ثقافت اور ایک قوم 'بھارتیہ' کو ترجیح دی گئی۔ آج ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہمیں خود آگے آنا ہوگا، تبھی امرت مہوتسو کے 'پانچ تھیم' کی صحیح تشریح ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ جس طرح سے تحریک آزادی میں ادیبوں نے قلم سے اپنی طاقت، جوش وجذبے اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری دنیا کو آئنہ دکھایا۔ اسی طرح آج بھی قلم کو آگے کرنا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ آج تک قلم کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی گئی۔ تلوار کو بھی قلم کی ضرورت تھی۔ رویندرناتھ ٹیگور کے ادب کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وہیں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ثروت شمسی نے کہا کہ ہندی میں اردو کے الفاظ جیسی خوبصورتی ہے۔ ہندی اور اردو محبت کی زبانیں ہیں۔ اردو نے ملک کو جوڑا ہے اور تحریک آزادی میں مجاہدین آزادی کی ڈھال تھی، اردو اور ہندی ہمیں ادب ثقافت سکھاتی ہے اردو محبت سکھاتی ہے۔ وہ محبت ہی نہیں جو آج کی نئی نسل سمجھتی ہے بلکہ وہ محبت عشق جو آپ اپنے رب سے کرتے ہیں تاہم آج میٹھی زبان کے ساتھ تفریق سے ہر وہ ہندوستانی جو محبت کی بات کرتا ہے اس کا دل ٹوٹ جاتاہے۔