ETV Bharat / state

آرٹیکل 370 معاملہ: جو کچھ ہوا اسے قبول کرنے سے بحالی کا عمل ہوگا، جسٹس کول

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 30, 2023, 9:31 AM IST

Acceptance of what has happened heals', Justice Kaul on Kashmir
Acceptance of what has happened heals', Justice Kaul on Kashmir

Justice Kaul on 370 سپریم کورٹ کے سابق جج سنجے کشن کول کا تعلق کشمیر سے ہے۔ جسٹس کول دفعہ 370 کی منسوخی کو برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کے بنچ کا حصہ تھے۔ ای ٹی وی بھارت کے سُمت سکسینہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، جسٹس کول نے کہا کہ کشمیر میں لوگوں کو اپنی جڑوں میں واپس جانے کے لیے ایک ماحول بنانا چاہیے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جج سنجے کشن کول نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ مفاہمت کا ایک راستہ موجود ہے اور کشمیر میں لوگوں کو اپنی جڑوں تک واپس جانے کے لیے ایک ماحول بنانا چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ، کشمیر میں اکثریت کو اقلیت کے ساتھ الحاق کے لیے کچھ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس خصوصی انٹرویو میں انہوں نے اس مسئلے سے متعلق مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

سوال: آپ نے کہا کہ آپ کشمیر میں جلے ہوئے اپنے گھر کو دوبارہ بنانے کا ارادہ کر رہے ہیں، کیا آپ تفصیل بتا سکتے ہیں؟

جواب: ذاتی طور پر، ہم نے مسئلہ کی ابتداء میں (کشمیری پنڈتوں کے مائگریشن کے دوران) دو کاٹیج کھو دیے، بظاہر کچھ باغی وہاں چھپے ہوئے تھے اور جب پولیس وہاں گئی تو انہوں نے گھر کو آگ لگا دی۔ 2005 میں کچھ مقامی سیاسی لوگ جو اس میں دلچسپی رکھتے تھے اور حکومت اس گھر کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھی، یہ تو باغیوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔ ایسے میں ہم نے مزاحمت کی۔ میں نے سوچا کہ واپس نہ آنے کا یہ اشارہ تھا، ہم نے مہمان نوازی کے لیے گھر دوبارہ تیار کیا اور میں 34 سال بعد دو ہفتے اس گھر میں رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چند سالوں میں (کشمیر میں) بہت زیادہ بہتری آئی ہے، حقیقت پسندی کا آغاز ہوا ہے۔

سوال: کیا آپ آرٹیکل 370 پر فیصلہ لکھتے ہوئے جذباتی تھے؟

جواب: ایک جج کی حیثیت سے آپ کو ایسے مسائل سے نمٹنے کی تربیت دی گئی ہے اور یہ مجھ سے جڑا ہوا تھا، لیکن میرے سوچنے کے عمل میں قانونی نقطہ میرے ذہن سے غیر مربوط تھا۔ میں نے کشمیر کی تاریخ کے بارے میں اپنے علم کے ساتھ فیصلے کو کھولا .... جو ایپیلاگ میں نے لکھا وہ جذباتی مواد تھا کیونکہ سماعت شروع ہونے سے ایک طویل عرصہ سے یہ میرے ذہن میں تھا کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ 1947 کے بعد کی طرح، لوگ زیادہ پریشان تھے اور لگتا تھا سب ختم ہوگیا لیکن تہذیب آگے بڑھی۔ تہذیب کو آگے بڑھنا چاہیے ورنہ جو کچھ ہوا ہے اس سے باہر نکل نہیں پائیں گے۔ لہذا، جو کچھ ہوا ہے اسے قبول کرنا بحالی کا عمل ہے۔

سوال: کیا آپ کے خیال میں اتنے سال گزر جانے کے بعد اب مفاہمت کا کوئی راستہ موجود ہے؟

جواب: میرا ایسا مانتا ہے کہ، ایسا نہیں ہے کہ جو لوگ چلے گئے ہیں وہ اچانک واپس آجائیں گے، ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی اسٹابلش کر چکے ہیں۔ میرے پاس دوسری نسل کے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر کہیں اور قائم کی ہے۔ اس میں بیرون ملک اور ملک کے مختلف حصے شامل ہیں۔ لیکن وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ انھیں واپس جانا پسند ہے کیونکہ آپ کی جڑیں وہیں ہیں۔ ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہیئے کہ کم از کم وہ اس جگہ کا دورہ کریں جہاں سے وہ ہے۔ اگر وہ اس جگہ کو دیکھنے کے لیے اپنے لیے رکھنا پسند کرتا ہے تو تب ہی بحالی کا عمل مکمل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:دفعہ 370 کی تشکیل سے اس کے خاتمے تک کا سفر

سوال: کیا آپ کے خیال میں کشمیر میں اکثریت کو اقلیت کے ساتھ الحاق کے لیے کچھ اقدامات کرنے چاہئیں؟

جواب: مجھے یقین ہے کہ ایسا ہونا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہو گا۔ یقیناً ایسے لوگ بھی ہیں جو امن کو پسند نہیں کریں گے لیکن اس عمل کے 30 سالوں میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے جن میں سے کچھ نے اچھا وقت نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے والدین سے اس کے بارے میں سنا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہاں واپس جانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک ساتھ رہنے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔

سوال: آرٹیکل 370 کے فیصلے میں، ناقدین نے کہا کہ اس فیصلے سے وفاقیت پر اثر پڑا ہے؟

جواب: آرٹیکل 370، جب اسے شامل کیا گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ جی اوز (سرکاری احکامات) کے اجراء کے ذریعے اس کے بہت سے دوسرے پہلو تھے، یہ کمزور ہو گیا اور سب نے اسے قبول کر لیا۔ جب سیاسی نظام نے یہ فیصلہ کیا کہ اس عارضی فراہمی کا مقصد پورا ہو چکا ہے اور اسے ختم کیا جانا چاہئے تو اسے ختم کر دیا گیا….

یہ بھی پڑھیں:جموں و کشمیر کی خصوصی دفعہ 370 سمیت سنہ 2023 کے اہم عدالتی فیصلے

جسٹس کول، 26 دسمبر 1958 کو پیدا ہوئے تھے وہ اسی ماہ کے شروع میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ انہوں نے 1982 میں کیمپس لاء سینٹر، دہلی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 15 جولائی 1982 کو بار کونسل آف دہلی میں ایڈوکیٹ کے طور پر پراکٹیس شروع کی۔ دسمبر 1999 میں،انھیں ایک سینئر وکیل کے طور پر نامزد کیا گیا تھا. مئی 2001 میں، جسٹس کول کو دہلی ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر ترقی دی گئی اور انہیں 2 مئی 2003 کو مستقل جج کے طور پر مقرر کیا گیا۔ انہیں یکم جون 2013 سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ جسٹس کول کو 17 فروری 2017 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.