ETV Bharat / state

Dr Ali Abbas Umeed اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف

author img

By

Published : Jul 28, 2023, 8:17 PM IST

اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف
اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف

ڈاکٹر علی عباس امید نے کہاکہ اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف ہے۔ مگر یہ صنف دھیرے دھیرے کم ہوتی جا رہی ہے۔ مرثیہ اور نوحہ کیا ہے اور اس ادب کی صنف سے کیوں دوری ہو رہی ہے۔

اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ ایک اہم صنف

بھوپال: اردو ادب میں مرثیہ اور نوحہ کی بات کی جائے تو یہ ایک بہت مشہور صنف ہے۔ مگر افسوس اس صنف سے لوگوں کی دوری دیکھی جا رہی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرثیہ اور نوحہ اب صرف محرم کے مہینے میں ہی پڑھے یا سنے جاتے ہیں۔ اور خاص طور سے کربلا کے شہیدوں کی یاد میں انہیں پڑھا یا سنا جا رہا ہے۔

وہیں ہندوستان میں مرثیہ اور نوحہ کو پڑھنے والے تو بہت نظر آ جاتے ہیں لیکن انہیں لکھنے والے کم ہی دیکھے جا رہے ہیں۔ جب ای ٹی وی بھارت نے اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر و ادیب علی عباس امید سے اس تعلق سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ مرثیہ اور نوحہ دو الگ الگ اصناف ہیں۔

انہوں نے کہا مرثیہ کسی کے غم میں پڑھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا یہ انسانی تاریخ ہے جب ہابل اور قابل میں سے ایک کی موت ہوئی تو دوسرے نے اس کی موت پہ غم کا اظہار کیا۔ مرثیہ اج سے نہیں بلکہ عربی اور فارسی کے دور سے چلا آ رہا ہے۔مرثیے کئی بڑے بڑے شعراء نے لکھے ہیں۔ لیکن وہیں ہم اگر مرثیہ کی اصل بات کریں تو وہ واقعہ کربلا پر لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ کیونکہ کربلا کا واقعہ اتنا عظیم ہے کہ اسے بیان کرنے کے لیے جتنے اساتذہ تھے۔

وہی اس سوال پر کہ مرثیہ اور نوحہ لکھنے والوں کی اب کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس پر ڈاکٹر علی عباس امید نے کہا کہ اپ مرثیے اور نوحے کی بات کر رہے ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ ادب کا دامن تو بڑا کوشادہ ہے۔ اور ادب کی کسی صنف کو کہیں بھی پڑھنے والے، سننے والے، لکھنے والے یا بولنے والے مل جائیں گے۔ جہاں تک ہمارے زبان کی بات ہے۔ اس کا دائرہ ہے وہ سمٹتا جا رہا ہے۔لوگ اس پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

وہیں مرثیہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہی کہہ سکتے ہیں جنہیں زبان پر پوری طرح سے عبور حاصل ہو۔ اور آج کے دور میں اتنا وقت لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا پہلے جیسی بات اب اس لیے نہیں ہے کیونکہ اب پہلے جیسے سننے والے ہے،نہ پڑھنے والے ہیں اور نہ ہی علماء ہیں۔ انہوں نے کہا مرثیہ ہندوستان ہو یا پاکستان میں آج بھی لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا میرے ذریعے بھی مرثیہ لکھا جا رہا ہے جو کہ نصاب میں آج بھی پڑھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا زوال تو ہر چیز پر ہے اور ان اصناف پر بھی نظر ارہا ہے۔ وہیں ڈاکٹر علی عباس امید نے اپنے ذریعے لکھے گئے مرثیے کو اے ٹی وی بھارت پر پیش کیا ۔

اسلام کی حیات کا تھا آسرا تھا لہو۔
انگاروں جیسی ریت پر بہنے لگا لہو۔

آقا لہو غلام لہو اقربا لہو اقرباء لہو۔
بیعت کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا سوا

لاکھوں سلام تم پہ شہیدان کربلا۔
لاکھوں درود تم پہ اسیران کربلا ۔

سمجھے تھے آسماں پہ ڈالیں گے وہ کمند۔
لیکن سروں پہ لے کے پھر تم کو فتح مند

گردن کٹا کے بھی رہے نیزوں پہ سر بلند۔
وللہ وہ ادا ہی تو خالق کو تھی پسند۔

تم نے سیاہ رات کے چھکے چھڑا دیے۔
نور خدا کے ٹکڑوں کے سکے چلا دیے ۔

یہ بھی پڑھیں:Ganga Jamuna School تنظیم شکشا ادھیکار منچ کی گنگا جمنا اسکول پر رپورٹ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.