بھوپال: سول سوسائٹی میں سے بچوں کے حقوق کے بارے میں فکر مند شہریوں کی ایک تنظیم شکشا ادھیکار منچ نے اس ماہ کے شروع میں ضلع دموہ کا دورہ کیا ۔350 سے زائد والدین اساتذہ اور بچوں سے بات چیت کی ۔گنگا جمنا اسکول میں تبدیلی مذہب اور اسلامی ماحول کے الزامات کی حقیقتوں کی تحقیقات کے لیے اسکول کا دورہ کیا۔
تنظیم کی رکن شیوانی تنیجا اور صبا خان نے بتایا کہ دستیاب دستاویز کے ساتھ ساتھ مقامی میڈیا رپورٹس کی جانچ پڑتال کے ذریعے، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مخصوص لوگوں کی غلط ذہنیت کے سبب 1200 سے زائد بچوں اور 57 افراد پر مشتمل اسکول کے عمل کے لیے ایک بحرانی صورتحال پیدا کر دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تمام الزامات بے بنیاد پائے گئے ہیں۔ ٹیم نے جو تحقیق کی ہے اپنے نتائج محکمہ اسکول ایجوکیشن اور وزیر اعلی کے دفتر میں جمع کر دیا ہے۔ اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے مفاد کا تحفظ کرے اور اپنے ائین کے ساتھ کھڑا رہیں ۔ مذہبی جنون کے ہاتھوں میں نہ جائیں۔
واضح رہے کہ اسکول میں تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب اسکول نے 5•98 فیصد پاس ہونے والے طلبات کے نتائج اور ٹاپر کی تصویروں والا پوسٹر لگایا گیا تھا۔ اس اسکول میں کم آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کے لیے اس انگریزی میڈیم ریاست سے تسلیم شدہ اسکول نے دسویں بورڈ کے امتحانات 2023 میں فرسٹ ڈویژن میں 61، سیکنڈ ڈویژن میں 64 طلبات نے ٹاپ کیا تھا۔ لیکن یہ الزام سامنے ائے کہ ہندو طالبات کو سر پر اسکارف پہننے اردو یا عربی سیکھنے پر مجبور کیا گیا۔یہ کہ اسکول نے مذہب پرستی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں اسکول کو بند کر دیا گیا۔ اسے منہدم کر دیا گیا، جس کے بعد سوشل میڈیا، جانبدارانہ رپورٹنگ، این سی پی سی آر کے صدر پرینکا قاننگو کے نوٹس اور بنیادی طاقتوں کی مقامی متحرک ہونے کی وجہ سے 2/6/23 کو اس سکول کی شناخت محکمہ اسکول ایجوکیشن مدھیہ پردیش نے معطل کر دی تھی۔
صبا خان بتاتی ہیں کہ مختلف الزامات کو دیکھا جائے تو درجہ ذیل حقائق سامنے اتے ہیں۔ مناسب انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی اسکول کی شناخت معطل کرنے کی بڑی وجہ رہی ہے۔ اسکول کے دورے کے دوران دیکھا گیا کہ 1208 بچوں کے لیے کلاس روم میں پڑھانے کے لیے 40 کمرے دستیاب ہیں۔ اسکول میں لیبارٹری، کمپیوٹر، لائبریری کی سہولیات کافی ہیں۔ بس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر بچے آس پاس ہی رہتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کی حکومت نے اسکول کی مکمل معائنہ کے بعد ہی 2021 میں 20024-25 تک کی پرمیشن تسلیم کی۔ وہیں ٹیم نے یہ بھی پایا کی اساتذہ کے تبدیلی مذہب کے الزامات بھی سراسر غلط ہیں۔ اسکول میں پڑھانے والی اساتذہ نے بہت پہلے مسلم خاندانوں میں شادی کی تھی، ان اساتذہ نے کلیکٹر کے سامنے یہ بھی بتایا کہ ہم نے 20 سے 25 سال پہلے یعنی اسکول میں انے سے پہلے ہی شادی کی تھی۔
وہیں حجاب کہے جانے والا اسکارف اگرچہ یونیفارم کا حصہ تھا وہ پہننا لازمی نہیں تھا۔ کیونکہ والدین خود اسکول یونی فارم کا انتخاب کرتے تھے اور سر کے اسکارف لیتے تھے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کو اس کو ہٹانے کی اجازت تھی جب یہ گرمی ہو یا کلاسز میں ہو۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کی طرف سے تجویز کردہ بچوں کو متبادل اسکولوں میں بھیجنے کا اپشن قابل عمل نہیں ہے کیونکہ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار بھی ناقص ہے اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ دموہ کہ سرکاری اسکولوں میں دسویں جماعت کے پاس ہونے کا مجموعی تناسب 77•61 فیصد رہا ہے اور اس لیے والدین کی تشویش بالکل جائز ہے۔ بچے کئی سالوں سے انگلش میڈیم میں پڑھ رہے ہیں اور آج کے دور میں تمام والدین کی یہی خواہش ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Congress MLA Arif Masood بھوپال میں رکن اسمبلی عارف مسعود کا ستیہ گرہ
ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ائین کا ارٹیکل 30(1) انسانی اور مذہبی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا نظم و نسق کرنے کا بنیادی حق دیتا ہے۔ گنگا جمنا اسکول کو مدھیہ پردیش بورڈ کی طرف سے دی گئی شناخت کے علاوہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی اداروں (MHRD حکومت ہند ) نے اقلیتی تعلیمی ادارہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ سے اسکول انتظامیہ کو اسکول کے کام کاج سے متعلق فیصلے لینے کی اجازت ہے۔ اس کے تمام کاموں میں سیکولرزم اور تعلیم سے وابستگی جو کہ اسکول کا سنگ بنیاد ہے واضح نظر اتا ہے۔ اسکول کا نام بذات مذہبی گروپوں میں انسانیت اور دوستی کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم وزیراعلی اور وزیر تعلیم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسکول کو چلنے دیا جائے، مذہبی بنیاد پرستی کی وجہ سے اتنے طلباء کا مستقبل تباہ نہ کیا جائے۔