ETV Bharat / bharat

بھارت۔پاکستان میں توہین آمیز بیانات نئی بات نہیں

author img

By

Published : Mar 6, 2019, 1:56 PM IST

بھارت ۔ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کے ذریعہ تضحیک، توہین آمیز اور نازیبا بیانات ظاہر کرکے اقلیتی طبقے کی تذلیل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان

پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو ہندو برادری کے بارے میں توہین آمیز بیان دینے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

اُن کے بیان پر سوشل میڈیا پر اُنھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

فیاض الحسن چوہان کا یہ بیان کسی سیاستدان کا اس نوعیت کا نہ پہلا اور نہ ہی آخری بیان ہے۔

پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان

پاکستان کی ہندو برادری کے بارے میں توہین اور تضحیک والی باتوں نے پاکستان اور انڈیا کے سیاستدانوں کی جانب سے اقلیتوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کے استعمال کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے۔

فیاض الحسن چوہان کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر جس گفتگو کا آغاز ہوا اُس میں مذمت کے علاوہ اِس پر بھی بات کی گئی کہ معاشرے میں ایسے رحجان کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔

اِس خطے کے سیاستدان کبھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تو کبھی سوچے سمجھے بغیر یا جوشِ خطابت میں اقلیتوں کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے ڈاکٹر طاہر القادری کی ٹوپی کا مذاق اڑاتے ہوئے اِنھیں مسیحی برادری کے پوپ سے تشبیہہ دی تھی۔ رحمان ملک نے بعد میں معذرت تو کی لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ انھوں نے کتنی آسانی سے ایسی بات کہہ دی۔

ممبئی کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے ایک رہنما سنجے راوت نے کچھ برس پہلے مسلمانوں کے بارے میں کہا کہ اُن سے ووٹ کا حق چھین لینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اِس لیے اگر اُن سے ووٹ دینے کا حق لے لیا جائے تو یہ اُن کے حق میں بہتر ہوگا۔

ظاہر ہے اِس بیان کی بھی بہت مذمت کی گئی لیکن انھیں جو کہنا تھا وہ کہہ گئے۔ شیو سینا اور بی جے پی کے لیے تو مذمت کوئی معنی بھی نہیں رکھتی۔ سیاسی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں اِن جماعتوں کے رہنماوں کے اکثر بیانات منصوبہ بندی کے تحت سیاسی فائدے کے لیے ہوتے ہیں۔

وہیں تریپورہ کے گورنر تاتھاگٹ رائے نے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں مودی حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ روہنگیا خراب لوگ ہیں اور ملک کے لیے سکیورٹی رسک ہیں۔ تاتھا گٹ اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے کئی مرتبہ خبروں میں رہے ہیں۔

بی جے پی کے ایک اور رہنما ساکشی مہاراج کئی مرتبہ مسلمانوں کے بارے میں نازیبا بیانات دے چکے ہیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے اسلام میں عورت کی حیثیت کمتر بتا کر تنقید کی۔ ایک دوسرے موقع پر انھوں نے مسلمانوں کے بارے میں گھسے پٹے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ بچے پیدا کرنے کی بات کی۔

برِصغیر کے سیاستدانوں کے اقلیتوں کے بارے میں نازیبا الفاظ، توہین آمیز جملے اور تذلیل کرنے والے بیانات کو معاشرے کے عمومی رحجانات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔

سوشل میڈیا یا ٹی وی شوز اور گھروں میں ہونے والی بحث میں ایسے بیانات کی پرزور مذمت شاید اب پہلے سے زیادہ نظر آ رہی ہے۔ اِن بیانات پر ردِعمل ہی میں اِن کا تدارک بھی ہے۔ اگر بات مذمت سے آگے بڑھ کر ووٹ بینک میں کمی تک پہنچ جائے اور سیاسی جماعتوں میں ایسے بدزبانوں کو آگے بڑھنے سے روکا جائے، اُن کی حوصلہ شکنی کی جائے تو اقلیتوں کے بارے میں بدکلامی کو روکا جاسکتا ہے۔

فی الحال پنجاب کی حکومت کی جانب سے فیاض الحسن چوہان کو عہدے سے سبکدوش کرنے سے کسی حد تک ایسے بیانات دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

Intro:Body:

ashraf


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.