ETV Bharat / opinion

مردہ دلہن کے لیے بھوت دولہا! چونکیے مت، جانیے روحوں کا جوڑا بنانے والی 'پریتھا مادوے' کی کہانی - Marriage of souls

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 25, 2024, 8:22 PM IST

کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع کے رہنے والے ایک خاندان نے جب اپنی بیٹی کی شادی کا اشتہار دیا تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ لیکن جب لوگوں نے مکمل تفصیلات دیکھی تو حیران رہ گئے۔ اس خاندان نے یہ اشتہار 30 سال قبل فوت ہوچکی اپنی بیٹی کی شادی کے لیے دیا تھا۔ اشتہار پڑھنے والوں نے سوچا کہ یہ ایک مذاق ہے۔ لیکن بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ یہ مذاق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ 'پریتھا مادوے' نام کی ایک روایت کا تسلسل ہے۔ یہ روایت کیا ہے؟ ای ٹی وی بھارت کے بلال بھٹ کا تجزیہ۔ Pretha Maduve

File- Collage of effigies used in a "Pretha Maduve".
پریتھا مادوے کی روایت میں استعمال ہونے والی مورتیوں کی تصاویر (File Photo: ETV Bharat)

حیدرآباد: جب عزیز و اقارب میں کسی کا انتقال ہوتا ہے تو لوگ صدمے سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں رنج و غم کے اظہار کا طریقہ بھی ہر شخص اور ہر ثقافت میں بہت الگ ہوتا ہے۔ کسی اپنے کی موت کے صدمے سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسے وقت میں ڈپریشن میں چلے جانا معمول کی بات ہے۔ لوگ غم سے نمٹنے کے لیے رسومات اور مذہبی روایات کی مدد لینے سمیت بہت سے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔

کچھ ہمالیائی علاقے اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ جہاں نوجوان کی موت پر رنج و غم کے اظہار کا انداز بالکل جدا جدا ملے گا۔ کہیں لوگ میت کو دولہے کی طرح مخاطب کر کے زور زور سے چلاتے اور ماتم کرتے ہیں تو کہیں فوت شدہ لڑکی کو دلہن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ دراصل والدین کی اپنے فوت شدہ بچوں کی شادی کی ادھوری خواہش درد کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر اس درد کی ٹیس تاحیات اٹھتی رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کرناٹک اور کیرالہ کے ساحلی علاقوں میں بسنے والی کچھ برادریوں میں اولاد کی موت کے بعد ان کی شادی کرنے کی روایت آج بھی زندہ ہے۔ یہ تصور کہ 'رشتے آسمان میں طے ہوتے ہیں اور ان کی تکمیل زمین پر ہوتی ہیں' کیرالہ اور کرناٹک کی ان برادریوں پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے، جہاں مردہ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں تاکہ وہ (موت کے بعد کی زندگی میں) ایک جوڑے کے طور پر رہ سکیں۔

ان پڑوسی ریاستوں کے ساحل پر آباد گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ کسی کو بھی اس پھل (شادی) کا ذائقہ چکھے بغیر نہیں مرنا چاہیے۔ اس لیے وہ مرنے کے بعد بھی اپنے بچوں کی شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان علاقوں میں شادی کا ادارہ اتنا مضبوط اور قابل احترام ہے کہ مردے بھی ازدواجی نظام کا حصہ ہیں۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر (Getty Image File Photo)

ان علاقوں میں مرنے والوں کی شادی ایک روایت بن چکی ہے۔ جن خاندانوں نے کم عمری میں کسی اپنے کو کھو دیا، انہیں اس روایت پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کی اس شادی میں وہ ان تمام رسومات کو نبھاتے ہیں جو زندہ لوگوں کی شادی بیاہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ وہ بھرپور طریقے سے کسی ایسے شخص کی شادی کا جشن مناتے ہیں جو اب ان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ 'پریتھا مادوے' (بھوت شادی) کے نام سے رشتے بناتے ہیں۔ ان برادریوں میں روحوں کو پُرسکون کرنے کے مقصد سے مردوں کی شادی کی یہ عجیب و غریب روایت آج بھی باقاعدہ چلن میں ہے۔ ایک عام خیال ہے کہ شادی کی خواہش غیر شادی شدہ روحوں کو برسوں تک پریشان کرتی ہے۔ مرنے والے بار بار اپنے گھر والوں کو خوابوں میں آ کر اس کی یاد دلاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خود کو زندہ ثابت کرنے کے لئے 18 سال قانونی لڑائی

اپنے پیارے بیٹے یا بیٹی کے لیے موزوں لڑکا تلاش کرنے اور میچ میکنگ کے لیے ایک اشتہار چھپوایا جاتا ہے۔ وہ اس میں اپنے توقعات کی فہرست پیش کرتے ہیں اور ایک اچھے جیون ساتھی کے تلاش کی امید کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک حالیہ اشتہار نے کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع کے ساحلی شہر منگلورو میں قارئین کو حیران کر دیا۔ اس میں والدین کافی عرصہ پہلے فوت ہو چکی اپنی بیٹی کے لیے ایک بھوت دولہا تلاش کر رہے تھے۔

جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا! اس خوفناک اشتہارات میں خاندان کا کہنا تھا کہ وہ 30 سال پہلے فوت ہو چکی اپنی شدہ بیٹی کے لیے ایک ایسا دولہا تلاش کر رہے تھے جو تین دہائی قبل مر چکا ہو۔ اشتہار میں کہا گیا کہ 'دولہے کا خاندان ان کی بنگیرہ برادی سے ہونا چاہیے اور بھوت شادی کے لیے تیار ہو۔ اشتہار دینے والا خاندان 'پریتھا مادوے' کرنا چاہتا ہے۔'

'پریتھا مادوے' کیا ہے اور یہ کیسے کیا جاتا ہے؟

'بھوت شادی' کا اہتمام کرنے والے خاندانوں کا ماننا ہے کہ یہ روایت ان کے مردہ بچوں کی روحوں کو ایک ساتھ لاتی ہے۔ اس سے انہیں موت کے بعد شادی کا موقع ملتا ہے۔ اس رسم کو انجام دینے والے لوگوں کا موقف ہے کہ وہ مرچکے اپنے پیارے بچوں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں سکون فراہم کرتے ہیں۔

اس شادی کے لیے 'شبھ مہورت' اور تاریخ جاننے کے لیے جیوتشی کی خدمت لی جاتی ہے۔ جیوتشی سے وقت اور تاریخ ملنے کے بعد پجاری سے شادی کرائی جاتی ہے اور آگ کے سامنے منتروں کا جاپ کیا جاتا ہے۔ مذہبی رسومات مرحلہ وار طریقے سے ادا کی جاتی ہیں۔ اس میں دونوں خاندان برابر شریک ہوتے ہیں، گویا دلہا اور دلہن ابھی زندہ ہوں۔ اس دوران دولہا اور دلہن کی نمائندگی کرنے کے لیے دو برتنوں کو شادی کی رسومات سے گزارا جاتا ہے۔ اس میں حقیقی لوگوں کی نہیں بلکہ بطور علامت ان برتنوں کے ذریعہ فوت شدہ جوڑے کی نمائندگی کی جاتی ہے۔ اس دوران دلہن کی نمائندگی کرنے والے برتن کو زیورات سے سجایا جاتا ہے۔ سجے ہوئے برتن کو وہ تمام رسومات ادا کرنی پڑتی ہیں جن سے زندوں کی شادی میں ہر دلہن کو گزرنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھیں: لکھنوی دوپلی ٹوپی عید اور ہولی میں کیوں استعمال ہوتی ہے

بھوپال کی بیگم کو ہرانے کیلئے جن سنگھ نے لگا دیا تھا پورا زور، مولانا آزاد نے کاٹ دیا تھا ٹکٹ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.