ETV Bharat / bharat

معروف وکیل فضیل احمد ایوبی سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 19, 2024, 3:52 PM IST

CAA 2019 معروف وکیل فضیل احمد ایوبی نے ماہرِ قانون سلمان خورشید کے ساتھ کورٹ میں ایک پیٹیشن داخل کی ہے۔ اپنی پیٹیشن میں مشاورت نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت فراہم کرنے کی پہلی کوشش 2004 میں کی گئی تھی جب وزارت داخلہ نے شہریت کا قانون بنایا تھا جس میں ان تمام پاکستانی ہندوَں کو شہریت دینا تھی جو اپنے وطن پاکستان میں بے گھر تھے اور کافی مدت سے بھارت میں رہنے کے لئے کوشاں تھے۔ حکومت کی عجلت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ شہری ترمیمی قانون 2019 کی ترمیم مذہبی بنیاد پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
Etv Bharat
Etv Bharat

نئی دہلی: معروف وکیل فُضیل احمد ایوبی نے سینئر اور ماہرِ قانون سلمان خورشید کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک پیٹیشن کورٹ میں داخل کی ہے۔ وکیل نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عرضی گزار نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 کی دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے پیٹیشن دائر کی ہے، جو شہریوں کے ایک طبقے کو رجسٹریشن کے ذریعے اہل ہونے سے روکتی ہے۔ مشاورت نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ملک میں خواہ وہ مذہبی معاملہ ہو، سیاسی معاملہ ہو یا اس کی کوئی اور شکل ہو بھارت میں پناہ حاصل کرنے والوں کا ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔

اپنی پیٹیشن میں مشاورت نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت فراہم کرنے کی پہلی کوشش 2004 میں کی گئی تھی جب وزارت داخلہ نے شہریت کا قانون بنایا تھا جو ترمیم 1965 اور 1971 کی ہند پاک جنگوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے ان پاکستانی ہندوں کو شہریت دینا تھی جو پاکستان میں بے گھر تھے اور بھارت میں رہنے کے لئے کافی وقت سےکوشاں تھے۔

تاہم یہ ترمیم شروع میں ایک سال کی مدت تک محدود تھی، اور بعد میں اسے دو سال اور پھر تین سال تک بڑھا دیا گیا، اور پھر اس کو ریاست گجرات اور راجستھان کے کچھ علاقوں میں جہاں اقلیت سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کے شناخت شدہ کیمپ موجود تھے اور جہاں پاکستان میں ہندو برادری پر ہونے والے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہجرت کرنے پر یہ لوگ مجبور ہوئے تھے٬ ایسے علاقوں میں موجود ان پناہ گزینوں کو شامل کیا گیا۔

اپنی پیٹیشن میں مشاورت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے سیاسی جماعت کو فوری فائدہ حاصل ہو جائے مگر یہ ملک کے لئے ایک خطرہ بھی ہے اور یہ قانون کی حکمرانی اور اصولوں کے تحت چلنے والے کسی بھی نظام کے خلاف ہے۔ مشاورتی درخواست میں درخواست کی گئی ہے کہ مذہبی ظلم و ستم سے نمٹنے کی آڑ میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی اس کوشش کو روکا جائے۔

وکیل نے عدالت کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی ہے جیسا کہ اس نے اپنی اصل درخواست میں پہلے ہی دلیل دی ہے کہ 2019 کا ایکٹ طاقت سے بنایا گیا ایکٹ ہے جو کہ واضح طور پر من مانی ہے۔ جب کہ آئین کا آرٹیکل 11 پارلیمنٹ کو شہریت کے حصول یا خاتمے کو منظم کرنے کا اختیار دیتا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے ذریعہ بنایا گیا ایسا قانون واضح طور پر من مانی اور دستور ہند کے اصولوں کے خلاف نہیں ہو سکتا۔

تاہم، 42ویں ترمیم کے ذریعے تمہید میں متعارف کرایا گیا سیکولرازم، ہندوستانی آئین کی بنیاد رہا ہے اور آئین ساز اسمبلی کے کسی مذہب یا مذہبی عقیدے کو استعمال نہ کرنے کے محتاط انتخاب میں بھی یہی ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ تقسیم کے وقت، جب ملک تقریباً مذہبی بنیاد پر تقسیم ہو چکا تھا، دستور ساز اسمبلی نے اُس وقت بھی اس بات کو ذہن میں رکھا تھا۔

حکومت کی عجلت اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ شہری ترمیمی قانون 2019 کی ترمیم مذہبی بنیاد پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.