ETV Bharat / state

Azam Khan Political Political Career: اترپردیش سیاست کا اہم چہرہ، اعظم خان کے سیاسی سفر پر ایک نظر

author img

By

Published : Mar 10, 2022, 8:09 AM IST

اترپردیش سیاست کا اہم چہرہ
اترپردیش سیاست کا اہم چہرہ، اعظم خان کے سیاسی سفر پر ایک نظر

محمد اعظم خان اترپردیش کی سیاست کا ایک بڑا چہرہ ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اعظم خان اترپردیش میں مسلمانوں کا بھی سب سے بڑا چہرہ ہیں۔ اے ایم یو طلبہ یونین کی سیاست کے بعد اعظم خان نے ریاست کی سیاست میں اپنی پہچان بنائی۔ رام پور میں نواب خاندان کو چیلنج کیا اور سیاسی طور پر انہیں مسلسل مات دیتے رہے۔ انہوں نے ریاست میں ایک مسلم چہرے کے طور پر خود کا وقار قائم رکھا۔ Azam Khan political Political Career

اعظم خان 14 اگست 1948 کو رام پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ محمد ممتاز خان کے عام گھرانے میں پیدا ہونے والے اعظم خان نے خود کو تعلیم سے منسلک رکھا۔ دوران طالب علم انہیں مطالعے کے شوقین تھا۔ بی اے (آنرز) اور ایم اے (آنرز) کی تعلیم حاصل کی۔ ایل ایل ایم کی پڑھائی کی اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ Azam Khan political Political Career

Azam Khan political Political Career
اترپردیش سیاست کا اہم چہرہ، اعظم خان کے سیاسی سفر پر ایک نظر

اعظم خان نے سیاست کی شروعات اے ایم یو میں دوران طالب علم ہی کی۔ وہ طلبہ یونین کا الیکشن بھی جیتے۔ قانون کی ڈگری اور اردو میں ماہرت رکھنے والے اعظم خان نے اے ایم یو کے ماحول میں زندگی کو سمجھنے والے اعظم خان ایک بہتر مقرر بن کر سامنے آئے۔ رفتہ رفتہ اس کی شناخت قائم ہونے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ اعظم خان کے الفاظ کتنے ہی کڑوے کیوں نہ ہو لیکن بولنے کا انداز بہت پیارا ہے۔

سنہ 17 مئی 1981 کو اعظم خان کی شادی ڈاکٹر تنزین فاطمہ سے ہوئی۔ ہردوئی میں پیدا ہونے والی تنزین فاطمہ نے بھی اے ایم یو سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ایم اے، ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی بھی کی۔ اس کے بعد انہوں نے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر پولیٹیکل سائنس بھی پڑھایا۔ اعظم اور تنزین کے دو بیٹے عبداللہ اور ادیب ہیں۔ عبداللہ اعظم سیاست میں بھی سرگرم ہیں، جب کہ دوسرا بیٹا ادیب رام پور میں باقی کام سنبھالتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

  • اعظم خان نے نوابوں کو چیلنج کیا

اعظم خان نے رام پور میں اپنی پیدائش سے ہی نواب خاندان کا قبضہ دیکھا تھا۔ سیاسی اور سماجی طور پر صرف نواب خاندان اور ان کے حامیوں کا غلبہ تھا۔ اعظم خان نے ان سب کو چیلنج کیا۔

سنہ 1977 میں جب ملک میں ایمرجنسی نافذ تھا اعظم خان نے پہلی بار اسمبلی انتخابات میں حصہ لیے۔ حالانکہ اس الیکشن میں انہیں کانگریس کے شانو خان ​​نے شکست دی تھی لیکن اعظم خان نے ہمت نہیں ہاری۔

سنہ 1980 میں اعظم خان جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اعظم خان ایم ایل اے بنے۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سنہ 1985 میں لوک دل کے ٹکٹ پر ایم ایل اے بنے۔ 1989 میں جنتا دل کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور پہلی بار یوپی حکومت میں وزیر بنے۔

اس کے بعد سنہ 1991، 1993، 2002، 2007، 2012 اور 2017 میں بھی اعظم خان نے اسمبلی انتخابات میں اپنے مخالفین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ حالانکہ سنہ 1996 میں انہیں بھی شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔ کانگریس کے افروز علی خان نے اعظم خان کو شکست دی۔ اگر چہ انہوں نے انتخابات ہار گئے تو لیکن راجیہ سبھا کا رکن بنا دیا گیا۔ مجموعی طور پر اعظم خان نو بار ایم ایل اے بن چکے ہیں۔ ایک بار راجیہ سبھا ایم پی اور ایک بار لوک سبھا ایم پی 2019 میں منتخب ہوئے ہیں۔ اب 2022 میں وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی رام پور سیٹ سے اسمبلی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اعظم خان کا سیاسی سفر جنتا دل سے لوک دل اور جنتا پارٹی تک چلا ۔ پھر اکتوبر 1992 میں جب ملائم سنگھ یادو نے اپنی الگ سماج وادی پارٹی بنائی تو اعظم خان ان میں شامل ہو گئے۔ پورے ملک میں منڈل بمقابلہ کمنڈل کی سیاست چل رہی تھی۔ ملائم سنگھ پسماندوں کا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے تو وہیں اعظم خان بھی ان کے ساتھ ایک مسلم چہرے کے طور پر شامل ہو گئے۔ اور اس طرح جڑے کہ ملائم سنگھ کا دایاں ہاتھ بن گئے۔ وہ سماج وادی پارٹی حکومت میں وزیر تھے۔ تاہم سنہ 2009 میں دونوں کے درمیان رسہ کشی بھی ہوئی۔ اعظم خان جیا پردا کے ٹکٹ کو لے کر پارٹی سے ناراض رہے۔ پارٹی سے بے دخلی تک کی نوبت آگئی، لیکن یہ سب کچھ دیر تک ہی رہا اور ملائم سنگھ نے انہیں منا کر دوبارہ بلایا۔

ملک اور ریاست کی سیاست میں جو کچھ بھی چل رہا ہو، رامپور میں اعظم خان کا ستارہ ہمیشہ بلند رہا ہے۔ ان کے ساتھ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بیٹے عبداللہ کو بھی انتخابی سیاست میں اتارا ہے اور وہ دونوں کامیاب ہوئے۔

تاہم یوپی میں سنہ 2017 میں یوگی اقتدار میں آنے کے بعد سے پورا خاندان خطرے میں پڑ گیا ہے۔ رام پور میں اعظم خان کی بنائی ہوئی محمد علی جوہر یونیورسٹی تنازع میں آگئی۔ اعظم خان کے خلاف زمین سے متعلق مقدمات درج کرائے گئے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مقدمات کی سماعت ہوئی۔ بیٹے عبداللہ پر غلط برتھ سرٹیفکیٹ کا الزام لگا، بیوی کو بھی جائیداد سے متعلق مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر پورا خاندان تنازعات میں گھر گیا۔ بیٹے کی رکنیت رد ہوگئی۔ وہ خود فروری 2020 سے جیل میں ہیں۔ بیٹا اور بیوی بھی کافی عرصہ جیل میں رہ چکے ہیں، فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

یہ پہلی بار ہو رہا ہے جب سیاسی طور پر بہت کچھ حاصل کرنے والے اعظم خان کو زندگی کے اس مرحلے میں مشکل وقت دیکھنا پڑا ہے۔ سیاسی الزامات کے درمیان کہا جا رہا ہے کہ' 2022 میں بھی اگر یوپی میں ایس پی کی حکومت نہیں بنتی ہے تو اعظم خان اور ان کے خاندان کو راحت ملنے کے امکانات کم ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.