ETV Bharat / state

اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے دیا جائے گا، سپریم کورٹ میں سماعت

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 9, 2024, 6:16 PM IST

AMU will be allowed to retain minority status, hearing in Supreme Court۔ عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو بحال کرنے یا ختم کرنے کا فیصلہ آج سپریم کورٹ میں سات رکنی بینچ کرسکتی ہے۔ اے ایم یو پارلیمانی ایکٹ 1920 اور 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے، جس کو بحال کرنے کی لڑائی اے ایم یو 2004 سے لڑرہی ہے۔

AMU will be allowed to retain minority status, hearing in Supreme Court
AMU will be allowed to retain minority status, hearing in Supreme Court

اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے دیا جائے گا، سپریم کورٹ میں سماعت

علیگڑھ: بانیٔ درسگاہ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کے لیے جس یونیورسٹی کی بنیاد مدرسۃ العلوم کی شکل میں تین بچوں کے ساتھ 24 مئی 1875 کو علیگڑھ میں ڈالی تھی جو دو سال بعد 8 مئی 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں تبدیل ہوا اور سر سید احمد خان کے انتقال کے تقریباً 22 سال بعد یعنی 1920 میں برطانوی حکومت کو 30 لاکھ روپے دے کر پارلیمانی ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا تھا۔ آج وہی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی لڑائی 2004 سے کورٹ میں لڑرہی ہے۔

حالانکہ یہ بات واضح ہے اور تاریخ میں بھی درج ہے کہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے جو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا تھا اور 1981 کے ترمیمی ایکٹ کے مطابق بھی یہ نہ صرف ایک اقلیتی ادارہ ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی بھی ذمہ داری اے ایم یو پر ہی عائد ہے۔ لیکن دور حکومت کا کہنا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے جس کی لڑائی اے ایم یو 2004 سے لڑ رہا ہے اسی ضمن میں آج سپریم کورٹ کی سات رکنی بینچ کی سماعت اہم اور تاریخی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ آج فیصلہ ہو سکتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔

اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے کے لیے اے ایم یو کی جانب سے ایڈووکیٹ راجیو دھون اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسییشن کی جانب سے کپیل سبل سپریم کورٹ کی سمعات میں موجود ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق اے ایم یو کے سابق پی ار او، سابق ڈائریکٹر اردو اکیڈمی اور ماہر سر سید نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا 'سر سید نے مدرسہ، کالج اور مستقبل کی یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے بنائی تھی یہ بات الگ ہے دیگر مذاہب کے طلبہ و طالبات کے لیے یونیورسٹی کے دروازے کھلے رکھے۔

اے ایم یو 1920 ایکٹ:
1920 میں دور حکومت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ اقلیتی ادارہ ہے جو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا ہے اسی لئے یونیورسٹی کی اعلی گورننگ باڈی 'اے ایم یو کورٹ' کے تمام رکن اس وقت مسلمان تھے اور اس کے رکن مسلمان ہی ہوں گے، مسلم طلبہ کو دینی تعلیم دی جائے گی، یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی مسلمان ہی ہوگا، یونیورسٹی کا نظام بھی مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اس وقت کے وائس رائے نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ آج میں مسلمانوں کے حوالے ان کی خواہشات کے مطابق تعلیمی ادارہ ان کے سپرد کر رہا ہوں۔

ہندوستان کی ازادی کے بعد 1951 میں جب مولانا آزاد وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے ایک پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں اے ایم یو کورٹ کے ممبر صرف مسلمان ہوں گے کو ختم کر دیا یعنی مسلم اقلیتی ادارے کی بنیادی چیزوں کو ختم کردیا گیا جس کے بعد 1967 کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارا نہیں ہے جس کے خلاف تحریکیں چلی تھی جس کے سبب یہ ایک سیاسی مسلہ بنا۔

1981 میں اندرا گاندھی کے دور میں پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے جس کو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا تھا اور یہ ایک نہیں بلکہ ملک کے مسلمانوں کی تعلیم اور ثقافت کی ذمہ داری بھی اے ایم یو پر عائد ہوتی ہے۔

2004 میں بی جے پی کی حکومت میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ پورے ہندوستان میں ایم ڈی اور ایم ایس کی داخلوں میں 50 فیصد انٹرنل طلبہ کا کوٹا اور 50 فیصد ایکسٹرنل طلبہ کا کوٹا ہونا چاہیے اس وقت اے ایم یو کے وائس چانسلر نسیم احمد تھے نے اس کو تسلیم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ اے ایم یو ایک اقلیتی ادارہ ہے، کیونکہ اے ایم یو نے حکومت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا اس لیے لوگ کورٹ چلے گئے، 2004 سے اے ایم یو اب تک دو کیس ہار چکا ہے جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے اقلیتی کردار کو بحال کروانے کے لئے سپریم کورٹ میں کیس لڑرہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے سماعت کرنے کا فیصلہ لیا۔

اسی ضمن میں آج سپریم کورٹ میں سات رکنی بینچ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے اقلیتی ادارا ہونے اور نہیں ہونے سے متعلق سماعت کر رہی ہے۔ ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید بتایا بی جے پی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کیا تھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ 1981 میں کانگریس کی حکومت نے اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ بتایا تھا اس لیے بی جے پی نے اس کے خلاف حلف نامہ داخل کیا تھا۔ ڈاکٹر راحت ابرار نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا جو شواہد ہیں، دستاویزات ہیں جو ہم نے اپنا مواقف پیش کرنے کی تیاری کی ہے۔ خدا کریں کہ ہم کامیاب ہو جائیں باقی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

AMU Minority Character اے ایم یو 1920 ایکٹ اور اقلیتی کردار پر کوئی خطرہ نہیں: ڈاکٹر محمد شاہد

AMUTA اے ایم یو اقلیتی کردار کی لڑائی اب ٹیچرس ایسوسی ایشن لڑے گی

'علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑوں گا'

'اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو کانگریس نے چوٹ پہنچائی'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.