ETV Bharat / opinion

Analytical Report on UP Assembly Elections 2022: اکھلیش یادو یوگی کے خلاف مضبوط دعویدار کے طور پر کیسے ابھرے؟

author img

By

Published : Jan 17, 2022, 11:01 PM IST

ای ٹی وی بھارت کے ایڈیٹر بلال بھٹ نے یوپی اسمبلی انتخابات 2022 پر اپنے تجزیاتی رپورٹ Analytical Report on UP Assembly elections 2022 میں لکھتے ہیں کہ پولرائزیشن کے باوجود سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو یوگی کے خلاف مضبوط دعویدار کے طور ابھرے ہیں، اسی دوران بی جے پی کے متعدد رکن اسمبلی و وزراء کے پارٹی چھوڑنے سے یوگی کے راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔

Samajwadi Party President Akhilesh Yadav
سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو

ہر گزرتے دن کے ساتھ اترپردیش میں انتخابی رجحانات تیزی سے بدل رہی ہے۔ برسر اقتدار بی جے پی، جس سے آئندہ اسمبلی انتخابات UP Assembly elections 2022 میں دوسری بار کلین سویپ کرنے کی امید تھی، اپنے رکن اسمبلی اور کابینی وزراء کو پارٹی چھوڑتے ہوئے دیکھ کر سخت صدمے میں ہے کیونکہ انتخابات کی تاریخیں تیزی سے قریب آرہی ہیں۔

اس کے علاوہ 2024 کے عام انتخابات کے لیے بھی ہر سیاسی پارٹیاں ابھی سے اپنے آپ کو منظم کر رہی تھی لیکن بی جے پی کے متعدد رکن اسمبلی نے پارٹی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔۔

یوپی کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ UP CM Yogi Adityanath نے 20 فیصد مسلم ووٹوں کو چھوڑ کر 80 فیصد ووٹوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے، اور ریاست میں پولرائزیشن کے خیال کو تقویت دینے کے لیے انھوں انتخابی ریلی میں 'ابا جان ' جسیے الفاظ کا استعمال کرچکے ہیں تاکہ ان ووٹروں کو اپنی جانب پولرائزیشن کے ذریعہ راغب کیا جسکے جنھوں نے گزشتہ انتخابات میں انھیں اکثریت دلایا تھا۔

ایک ٹی وی چینل کے کنکلیو میں یوگی نے آنے والے انتخابات کو پولرائزیشن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد کا ذکر بھی کیا تھا۔

یوگی کے اس متنازع بیان نے ملک گیر بحث کو جنم دے دیا کیونکہ یہ اعداد و شمار اتفاق سے اکثریت اور مذہبی اقلیت کی آبادی کے تناسب سے بالکل درست ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یوگی اس بیان کے تعلق سے مزید انکشاف کرتے کہ ان کا اصل مطلب کیا تھا، سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کیا کہ "مسٹر آدتیہ ناتھ کی لغت میں برہمن ذات نہیں ہے بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے، یوپی میں 80% ووٹر قومی ہیں، 20% ووٹر ملک دشمن ہیں۔’یہ ایک بس اتفاق ہے کہ یوپی کی 19.26 فیصد آبادی مسلمان ہے۔

اس طرح کے بیانات نے قومی نیوز چینلز پر زبردست بحث چھیڑ دی ہے۔ جس کی تشریح یہ کی گئی کہ یوگی نے انتخابات سے قبل مذہبی تقسیم کے لیے ایک لہجہ قائم کیا اور ان کا مطلب اکثریت بمقابلہ مذہبی اقلیت ہے۔

UP Assembly elections 2022
یوپی اسمبلی انتخابات 2022

سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو National President of Samajwadi Party Akhilesh Yadav نے یوگی کے بیان کو ٹویٹ کرکے کہا کہ 80 فیصد ووٹر ایس پی اور 20 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں۔

یوپی میں انتخابی عمل اس وقت اور بھی زیادہ دلچسپ ہو گیا جب بی جے پی کے متعدد رکن اسمبلی اور کچھ کابینی وزراء نے یوگی پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی کو چھوڑ دیا کہ بی جے پی دلتوں، او بی سی اور پسماندہ لوگوں کے تئیں غیر سنجیدہ ہے۔

کچھ میڈیا ہاؤسز کی جانب سے کئے گئے انتخابی سروے کے نتائج کو دیکھتے ہوئے پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یوپی انتخابات بی جے پی کے لیے جیتنا بہت آسان ہونے والے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں میں چیزیں یکسر بدل گئی ہیں جہاں 10 رکن اسمبلی پہلے ہی بی جے پی سے نکل چکے ہیں اور بہت سے اسمبلی کے پارٹی چھوڑنے کی قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔

پارٹی چھوڑنے والے وزیروں میں سے ایک سوامی پرساد موریہ نے کہا کہ بہت سے لوگ بی جے پی کو چھوڑنے والے ہے اور ہر روز کم از کم ایک یا دو رکن اسمبلی بی جے پی چھوڑ رہے ہوں گے۔

مشرقی یوپی (پوروانچل) سے مٹھ کے مہنت کے طور پر اپنی منفرد امیدواری کے لیے یوگی کو بہت زیادہ مذہبی پرستاروں کے ساتھ دیکھا گیا کہ وہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر پھر کامیاب ہونگے۔ وہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ پارٹی کے بڑے اور سینیئر رہنماؤں کے باوجود یوپی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔

2017 کے اسمبلی انتخابات میں پولرائزیشن نے ریاست میں کافی اہم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے ذات پات اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں نے یوگی کو ہی ووٹ دیا سوائے کچھ مسلمانوں کے جو منتشر اور منقسم تھے جن کی کوئی مناسب نمائندگی نہیں تھی۔

2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی نے کل 301 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس میں سے صرف یوپی سے 62 سیٹیں تھیں اور اسے مودی کے لیے یوگی کی مہم کو ایک اہم شراکت کے طور پر دیکھا گیا۔

پارٹی کا خیال تھا کہ یوگی اور مودی دونوں نے ہندوتوا کے لیے اپنے کرشماتی اور پولرائزنگ بیان کے ذریعے ووٹروں کو راغب کرنے میں مدد کی۔ اس انتخاب میں اکثریت اور مذہبی اقلیت کے درمیان مذہبی تقسیم کافی زیادہ حاوی رہی جس کی وجہ سے بی جے پی کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔

لیکن اب یوپی انتخابات کے لیے حالات نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور یہ ایک بار پھر وہیں پرانا طریقہ اپنایا جا رہا ہےجس میں ذات پات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یوپی انتخابات میں امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ذات، قبیلہ اور فرقہ پھر سے ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔

2017 کے انتخابات کے برعکس، جاٹ، او بی سی، دلت ایک بار پھر ایک متوازی فورم کی تلاش میں ہیں تاکہ ان کی بات سنی جائے، جو کہ 2017 میں اپنی قسمت بی جے پی کے ساتھ طے کر لی تھی یہ سمجھ کر کہ ان کا خیال رکھا جائے گا، لیکن بی جے پی ایم ایل ایز کا پارٹی چھوڑنا واضح کر دیا ہے کہ اس انتخاب میں یہ اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا کہ پچھلے انتخاب میں نظر آرہا تھا۔

کیونکہ اس دفعہ اکھلیش یادو نے کافی ہوم ورک کیا ہے۔ درحقیقت یہ معلوم ہوا ہے کہ اکھلیش نے ہر حلقے کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور ان مسائل کی فہرست بنائی ہے جن سے لوگ موجودہ حکومت سے ناخوش ہیں۔

Jaitley Singh Chaudhary of Rashtriya Lok Dal and Akhilesh Yadav, President of SP
راشٹریہ لوک دل کے جینت سنگھ چودھری اور سپا کے صدر اکھلیش یادو

راشٹریہ لوک دل کے جینت سنگھ چودھری کی زیر قیادت جاٹوں نے بی جے پی کے سابق حلیف ایس پی کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں اور مغربی یوپی کے تقریباً 50 اسمبلی حلقوں میں اپنی برادری میں اکھلیش کی موجودگی کو نشان زد کیا ہے۔

اس کے علاوہ سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے ایک اور غیر یادو او بی سی لیڈر اوم پرکاش راجبہر نے مشرقی یوپی میں بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے اکھیلش یادو سے ہاتھ ملا چکے ہیں، مشرقی یوپی میں راجبھر کی نمایاں موجودگی ہے۔

مغربی یوپی میں نمایاں موجودگی کے ساتھ ریاست میں تقریباً 19.5 فیصد ووٹ شیئر کرنے والے مسلمان یا تو کسی غیر بی جے پی امیدوار کو ووٹ دیں گے یا کسی ایسے شخص کو ووٹ کرینگے جو ان کی امنگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

اے آئی ایم آئی ایم نے اعلان کیا تھا کہ وہ 100 سیٹوں پر انتخاب لڑیں گے اور کچھ عرصہ پہلے تک جارحانہ طور پر اپنی انتخابی مہم بھی چلا رہے تھے لیکن کچھ مسلم اسکالرز اور دیگر اہم مسلم اثر و رسوخ رکھنے والوں نے اسدالدین اویسی سے اپیل کی ہے کہ وہ وہاں لڑیں جہاں انھیں جیتنے کا 100 فیصد چانس ہو یا پھر غیر بی جے پی امیدواروں کی حمایت کریں۔

MIM President Asaduddin Owaisi
ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی

اس کے علاوہ، اکھلیش یادو بی جے پی کے خلاف مضبوط دعویدار سمجھے جاتے ہیں لیکن کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا کا خواتین کے لیے گلابی منشور یقینی طور پر ایک خراب کھیل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کانگریس اپنے امیدواروں کا نقشہ کیسے اور کس کے خلاف بنائے گی۔

لیکن ایک بات یقینی ہے کہ حکومت سازی میں کانگریس اور بہوجن سماج وادی پارٹی (بی ایس پی) غیر اہم رہیں گی۔دونوں پارٹیوں کے زیادہ تر موجودہ رکن اسمبلی پہلے ہی ایس پی کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں۔ اکھلیش گرچہ حکومت نہ بنائیں لیکن یوگی کے راتوں کی نیندیں اڑا دیں گے۔

اگر یوگی 2022 کے انتخابات میں ایک کمزور وزیراعلیٰ کے طور پر ابھرتے ہیں تو اس کے قومی سطح پر بی جے پی پر بہت بڑے نتائج ہوں گے کیونکہ یہ انتخابات یوگی اور پی ایم مودی دونوں کے لیے اہم ہونے والے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.