ETV Bharat / international

چا بہار: بھارت کی ٹرین کیوں چھوٹ گئی؟

author img

By

Published : Jul 23, 2020, 8:57 PM IST

سنجے کپور نے چابہار پروجیکٹ سے بھارت کو باہر کئے جانے پر کہا ہے کہ متذبذب بھارت امریکی خوف کا شکار بھی ہوا ہے اور بھارت کو چا بہار بندرگاہ سے زاہدان تک ریل لنک کی مجوزہ تعمیر کے پروجیکٹ سے الگ کرنے کا ایرانی حکومت کا فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ بھارت جو ایک بڑا ملک ہے، اس کے پاس اپنی اسٹریٹجی عمل میں لانے کی آزادی نہیں ہے اور یہ ملک اپنے قومی مفادات کے حق میں آگے بڑھنے کے بجائے امریکہ سے خوفزدہ ہے۔

چا بہار: بھارت کی ٹرین کیوں چھوٹ گئی؟
چا بہار: بھارت کی ٹرین کیوں چھوٹ گئی؟

بھارت کی ایک ریلوئے کمپنی انڈین ریلوے کنسٹرکشن لمیٹیڈ (اِرکان) نے ایران کی حکومت کے ساتھ اس ریلوے لائن کی تعمیر کے حوالے فیزبلٹی جائزہ لینے کے لئے ایک یاد داشت پر دستخط کئے ہیں۔ بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان سہ ملکی رابطہ کے اُس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس ٹرین لنک کی تعمیر ضروری تھی۔ جس پر وزیراعظم مودی نے سال 2016ء میں اپنے ایران دورے کے دوران دستخط کئے تھے۔

چا بہار بندرگاہ خلیجِ عمان کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے۔ یہ بندر گاہ تینوں ممالک کے رابطے کے حوالے سے ایک مرکز کی اہمیت رکھتا ہے۔ ایران کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اس نے ریلوے لائن کی تعمیر کے لئے بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔ ابھی تو صرف بھارتی ریلوے کمپنی کے ساتھ مجوزہ ریل لنک کی تعمیر کی فیزبلٹی کا جائزہ لینے سے متعلق ایک یاداشت پر ہی دستخط ہوگئے ہیں۔ بھارت نے ریل لنک کی تعمیر کے لئے سرمایہ کاری کرنے کا صرف اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن عملی طور پر اس نے اسے شروع کرنے کے عمل کا آغاز نہیں کیا تھا۔ ریل لائن کی تعمیر کا کام شروع کرنے کےلئے 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی تھی۔ بھارت نے اس ریل لنک، جو چا بہار بندرگاہ کی تعمیر کے لئے ضروری ہے، فنڈز فراہم کیوں نہیں کئے؟ اس سوال کے جواب میں کئی نظریات اور وجوہات کارفرما ہیں۔ ایران کا یہ الزام بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ بھارت جو ایک بڑا ملک ہے، کے پاس اپنی اسٹریٹجی عملانے کی آزادی نہیں ہے اور یہ ملک اپنے قومی مفادات کے حق میں آگے بڑھنے کے بجائے امریکا سے خوفزدہ ہے۔ پروجیکٹ کی فنڈنگ کی واگذاری میں آنا کانی کرنے کے بھارت کے رویہ کی بظاہر یہ وجہ ہے کہ اسے خدشہ تھا کہ امریکا اس پر پابندیاں عائد نہ کرے۔ حالانکہ چا بہار بندرگاہ کو امریکا نے پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا ہوا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ اس بندرگاہ کی وجہ سے افغان تجارت کو مدد ملے گی اور اس طرح سے پاکستان کی کراچی بندرگاہ پر افغانستان کا انحصار کم ہوجائے گا۔ تاہم حال ہی میں پاکستان نے کابل کو اپنی اشیاء واگہہ سرحد تک لانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس لحاظ سے بھارت کا خوف بے جا ثابت ہورہا ہے۔

اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔ بھارت خود کو ایران سے دور کررہا ہے کیونکہ ایران نے دفعہ 370 کو ختم کرنے اور حکومت ہند کی جانب سے کشمیر کا درجہ تبدیل کرنے کی پرزور مخالفت کی ہے۔ ایران کی قیادت بھارت سرکار کی جانب سے شہری آزادی کو کچلنے کے اقدامات کی تنقید کرتی رہی ہے۔ کیونکہ یہ مسلم دُنیا کے لئے ایک باعث تشویش معاملہ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایران کے روحانی لیڈر آیتہ اللہ خمینی نے بھارت کی شہریت ترمیمی ایکٹ کی بھی نکتہ چینی کی ہے اور کہا کہ یہ ایکٹ کے مسلم مخالف اثرات مرتب ہونگے۔ دلی فسادات، جنہیں بعض لوگوں نے نسل کشی سے تعبیر کیا ہے، کی بھی ایرانیوں نے تنقید کی ہے۔

کشمیر در اصل ایران کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی کشمیر کو ’’ایران صغیر‘‘ پکارتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی کا سبب بھی کشمیر ہی ہے۔ ایران نے اس کے حل کے لئے اپنی سفارتی مدد کی بھی پیش کش کی ہے اور ساتھ ہی بھارت کو چا بہار کے ذریعے سٹریٹجک سپیس دینے کی کوشش بھی کی۔ چابہار بلوچستان کے سِستان صوبے کے قریب ہی واقع ہے۔ چابہار تک بھارت کی رسائی کے نتیجے میں وہ پاکستانی عزائم کا مقابلہ بھی کرسکتا تھا۔

پاکستان پر لگام لگانے اور بھارت کے ساتھ قُربت بڑھانے کے اس نظریے کی زبردست طرفداری ایران کے سرکردہ جنرل، قاسم سلیمانی، جو قُدس فورس کے سربراہ تھے، نے کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت جلدی سے چا بہار میں جاگُھسے اور اپنے سٹریٹجک اہداف کو پورا کرے۔ بدقسمتی سے وہ امریکیوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ یہ بات ایران کے حق میں جاتی ہے کہ اس نے چابہار کو چین کے سپرد نہیں کیا۔ حالانکہ ایسا کرنا اس کے لئے آسان تھا۔ کیونکہ یہ بندرگاہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ، جسے چین سی پیک سے جوڑنے کےلئے ڈیولپ کررہا ہے، سے محض 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ چین نے بخوشی چا بہار کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوتا لیکن تہران نے اس ادراک کا مظاہرہ کیا کہ بھارت وسط ایشا تک پہنچنے کےلئے یہ بندرگاہ بھارت کےلئے ضروری ہے۔ دراصل ایران کو اپنی قدیم تہذیب پر فخر ہے اور وہ ایک خود مختار خارجہ پالیسی میں یقین رکھتا ہے۔ اس لئے اس نے چا بہار بندرگاہ کے حوالے سے اپنی خود اختیاری کو تیاگ نہیں دیا۔ حالانکہ یہ ملک امریکا کی پابندیوں کی وجہ سے برے حالات سے دوچار ہے۔ ایران کو اُمید تھی کہ امریکا کے ساتھ بھارت کے اچھے تعلقات کے نتیجے میں چابہار بندرگاہ تجارت کے لئے کھلی رہ سکتی ہے۔ امریکا کی پابندیوں کے نتیجے میں آبنائے ہرمز بندرگاہ پر تجارتی سرگرمیاں بند ہوگئیں کیونکہ امریکا نے ایران پر تیل برآمدات پر پابندی لگادی ہے۔ بھارت چا بہار کا بھر پور فائدہ اٹھانے سے قاصر رہا ہے کیونکہ وہ خود افغانستان کے حوالے سے خدشات اور تذبذب کا شکار ہے۔ بھارت اس تذبذب میں رہا کہ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی تو اس کی سرمایہ کاری کا کیا ہوگا۔ کیا امریکا کے نمائندے زلمی خلیل زاد اور طالبان کے درمیان نئے معاہدے کے بعد بھارت کی سرمایہ کاری محفوظ ہے؟ اگرچہ طالبان امن و دوستی کی بات کرتا ہے لیکن سب جانتے ہیں جب طالبان کابل پر قبضہ کرے گا تو اس کے بعد کیا ہوگا۔ ماضی میں طالبان نے خود کو لاقانونیت سے بھر پور ثابت کیا۔ اُنہیں کسی معاہدے کا پاس و لحاظ نہیں ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے بھارت ایران میں انوسٹمنٹ کرنے سے گریزاں ہے۔

دوسری جانب ایران بھی اس بات پر نظر رکھے ہوئے کہ شمالی لداخ میں بھارت اور چین کی افواج کا آمنا سامنا کیا رنگ لائے گا۔ جس انداز میں چین نے بھارت کی زمین پر قبضہ کیا، اس سے یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ بھارت امریکا کے تعاون کے بغیر اپنے مفاد کےلئے خود کوئی اقدام نہیں کرسکتا ہے۔ چین جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن تبدیل کررہا ہے۔ چین کے تئیں ایران کی قربت اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ امریکا کی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو جو تکلیف پہنچی ہے اور جس طرح سے وہ معاشی بدحالی کا شکار ہوگیا اور مواقعہ کھو بیٹھا ہے، اس نے ایران کو چین کی جانب سے چار سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ اپنے اس منصوبے کو ایران نے سال 2016ء سے صیغہ راز میں رکھا ہوا تھا۔

ایران کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زمین چین کو نہیں دے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کچھ اس طرح کی اپنائی ہے کہ وہ ایشیا کے دو بڑے ممالک یعنی بھارت اور چین کے درمیان تنازعے میں متاثر نہ ہو۔

چابہار ریلوے پروجیکٹ حقیقت میں بھارت کا پروجیکٹ نہیں تھا، جیسا کہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ چین کی جارحیت کے نتیجے میں اس خطے میں اب زمینی حالات بدل چکے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے بھارت کمزور ہوگیا ہے اور اب وبا کے بعد کی دُنیا میں آس پاس کے ممالک نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنا مستقبل طے کریں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.