ETV Bharat / entertainment

Kaifi Azmi Birth Anniversary: کیفی اعظمی کے لکھے نغمے آج بھی سامعین کو محظوظ کرتے ہیں

author img

By

Published : Jan 14, 2023, 9:48 AM IST

کیفی اعظمی کے لکھے نغمے آج بھی سامعین کو محظوظ کرتے ہیں
کیفی اعظمی کے لکھے نغمے آج بھی سامعین کو محظوظ کرتے ہیں

کیفی اعظمی کا شمار اردو کے ممتاز ترقی پسند شعرا اور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ آج ان کی 104ویں سالگرہ ہے۔ کیفی اعظمی نے اردو ادب کو ہندی فلم انڈسٹری کا حصہ بنایا۔ انہوں نے شعلہ اور شبنم، کہرا، نسیم، انوپما، اُس کی کہانی، پاکیزہ، ہنستے زخم، ارتھ، رضیہ سلطان، سات ہندوستانی اور باورچی جیسی فلموں کے گیت لکھے۔ Kaifi Azmi Birth Anniversary

ممبئی: ہندی فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن سے ہی نظر آنے لگی تھی۔ کیفی اعظمی کی ولادت 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی ان کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلی تعلیم دلانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی کا داخلہ لکھنٔو کے مشہور مدرسے ’’سلطان المدارس‘‘ میں کرادیا تھا۔ کیفی نے محض گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے۔ لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔Kaifi Azmi Birth Anniversary

ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کے لئے ان کے والد نے انہیں ایک مصرعہ دیا اور اس پر غزل لکھنے کو کہا۔ کیفی نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پوری غزل لکھ ڈالی۔ ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔ غزل کا مطلع یوں ہے:

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے اس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا‘‘۔ کیفی اعظمی کبھی بھی اعلی تعلیم کے خواہش مند نہیں تھے۔ مدرسہ میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کے غیر منظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طالب علموں سے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔ ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی لیکن اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی اعظمی مدرسہ انتظامیہ کے لئے مشکل بن گئے جس کی وجہ سے ہڑتال کے خاتمہ کے بعد انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔ اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کے چند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔ اس کے بعد ایک طالب علم رہنما اطہر حسین نے ایک شاعر کیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔

سال 1942 میں کیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے لکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر بھارت چھوڑو تحریک میں شامل ہو گئے۔ اس دوران مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ چنانچہ سال 1947 میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں تبدیل ہو گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

شادی کے بعد اخراجات بڑھنے کے سبب کیفی اعظمی نے ایک اردو اخبار کے لیے لکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں 150 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’’سرفراز‘‘ لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ اخبار کے لئے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری شروع کی۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کیفی اعظمی نے سب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم ’’بزدل‘‘کے لئے دو نغمے لکھے جس کے عوض انہیں 1000 روپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے 1959 میں آئی فلم کاغذ کے پھول کے لئے 'وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم' جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔ اس کے بعد 1965 میں فلم 'حقیقت' کے نغموں بالخصوص 'کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں' کی کامیابی کے ساتھ وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے گئے۔

کیفی اعظمی نے فلم 'گرم ہوا ' کی کہانی ڈائیلاگ اور اسکرین پلے لکھے جس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلم 'ہیر رانجھا' کے منظوم مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے شیام بینیگل کی فلم 'منتھن' کی اسکرپٹ بھی لکھی۔ تقریباً 75 برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجواں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یو این آئی

مزید پڑھیں:کیفی اعظمی ایک تخلیقی نثر نگارتھے: پروفیسر شارب ردولوی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.