ETV Bharat / bharat

ندا فاضلی کی برسی پر خاص پیشکش: دل ملے نہ ملے، ہاتھ ملاتے رہیے

author img

By

Published : Feb 8, 2020, 8:44 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 4:28 PM IST

اردو کے معروف شاعر ندا فاضلی کی آج چوتھی برسی ہے۔ ان کا انتقال 8 فروری 2016 کو ممبئی میں ہوا تھا۔ انہوں نے 77 برس کی عمر پائی۔

Special Story on the death anniversary of Nida Fazli
ندا فاضلی کی برسی پر خاص پیشکش: دل ملے نہ ملے، ہاتھ ملاتے رہیے

ندا فاضلی کا اصل و پورا نام مقتدا حسن فاضلی اور تخلص ندا ہے۔ 12 اکتوبر 1938 کو وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔

دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری وراثت میں ملی۔ ان کے گھر میں اردو اور فارسی دیوان کے مجموعے بھرے پڑے تھے۔ ان کے والد بھی شعر و شاعری میں دلچسپی لیا کرتے تھے اور ان کا اپنا ایک شعری مجموعہ بھی تھا، جسے ندا فاضلی اکثر پڑھا کرتے۔

ندا فاضلی نے گوالیار کالج سے گریجویٹ کی تعلیم مکمل کی اور اپنے خوابوں کو ایک نئی شکل دینے کے لیے وہ سنہ 1964 میں ممبئی آ گئے۔

یہاں انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس درمیان انہوں نے دھرم يگ اور بلٹز جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کر دیا۔ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے ندا فاضلی تھوڑے ہی وقت میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی دوران اردو ادب کے کچھ ترقی پسند مصنفین اور شعرا ندا سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں ندا فاضلی کے اندر ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔

انہوں نے ندا فاضلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی اور انہیں مشاعروں میں آنے کی دعوت دی۔

ان دنوں اردو ادب کی تحریروں کی ایک حد مقرر تھی۔ آہستہ آہستہ ندا فاضلی نے اردو ادب کی حدود کو توڑتے ہوئے اپنی تحریر کا ایک الگ انداز بنایا۔


ندا فاضلی مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے، جس سے انہیں پورے ملک میں شہرت حاصل ہوئی۔ 70 کی دہائی میں ممبئی میں اپنے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کر انہوں نے فلموں کے لیے بھی گیت لکھنا شروع کر دیا لیکن فلموں کی ناکامی کے بعد انہیں اپنا فلمی کیریئر ڈوبتا نظر آیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

تقریباً دس برسوں تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کےبعد ندا فاضلی 1980 میں ریلیز فلم 'آپ تو ایسے نہ تھے' کے اپنے نغمہ 'تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے' کی کامیابی کے بعد بطور نغمہ نگار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

ندا فاضلی انسان دوست شاعر تھے اور اس سلسلے میں وہ سماج کی جانب سے عائد پابندیوں، خاص طور پر مذہبی قید و بند پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے۔

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

۔۔۔۔۔۔۔
اس جیسے موضوع پر ان کا ایک قطعہ بھی ہے۔

گھاس پر کھیلتا ہے اک بچّہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں دنیا
کعبہ و سومنات جاتی ہے

ندا 80 کی دہائی میں ابھرنے والی علامت نگاری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ان کا مشہور شعر ہے۔

سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

مشہور ادیب وارث علوی ندا فاضلی کو اپنا پسندیدہ شاعر بتاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ 'جدید شاعروں کی جو نسل 55-1950 کے بعد سامنے آئی اس میں ندا میرے پسندیدہ شاعر ہیں'۔

ماں کے موضوع پر ایک نظم کو وارث علوی اردو کی بہترین نظم قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے چوکا باسِن چمٹا پھکنی جیسی ماں
بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوتی آدھی جاگتی تھکی دوپہری جیسی ماں
بیوی بیٹی بہن پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھر اک رسی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں

مذکورہ نظم کے حوالے سے وارث علوی رقمطراز ہیں کہ 'ماں کے موضوع پر ویسے تو اقبال کی نظم ''والدہ مرحومہ کی یاد میں'' ایک اچھی نظم شمار کی جاتی ہے۔ لیکن نظم فلسفیانہ خیالات سے اتنی بوجھل ہے کہ نہ تو ماں کی تصویر ابھرتی ہے نہ شخصی تاثر پر تاثیر ڈھنگ سے اظہار پاتا ہے۔ میرے نزدیک اردو میں ماں کے موضوع پر صرف دو نظمیں یادگار ہیں۔ فراق کی نظم ''جگنو '' اور ندا کی مذکورہ بالا نظم'۔

ندا فاضلی نے نظموں کے علاوہ دوہے، غزلیں بھی کہی ہیں۔ ندا فاضلی کا شعری مجموعہ 'لفظوں کا پل' 1969 کے آس پاس شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں۔ 'کھویا ہوا سا کچھ'، 'دیواروں کے باہر'، 'دیواروں کے بیچ'(خودنوشت)، 'دنیا مرے آگے'، 'شہر میں گاؤں'، 'شہر میرے ساتھ چل تو'، 'مورناچ'(مجموعہ کلام) 'ملاقاتیں'(خاکے)۔

ندا فاضلی کو ان کی کتابوں پر کئی ایوارڈ و انعامات دیے گئے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ان کے نام درج ہے۔ اخیر میں ان کے کچھ مشہور اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 4:28 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.