Jalal Lakhnavi: جلال لکھنوی ہماری کلاسیکی ادبی تہذیب کے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں

author img

By

Published : Mar 20, 2022, 9:46 AM IST

جلال لکھنوی

پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ جلال کی تصانیف پر ایک نظر ڈالنے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ شعر گوئی کے علاوہ انھیں جن میدانوں سے خصوصی دلچسپی تھی،ان میں زبان کے اصول وقواعد، بالخصوص فن شعر میں زبان کے استعمال کی صورتیں شامل ہیں۔پروفیسر احمد محفوظ نے اس بات پر زور دیا کہ جلال کا خاص وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے شعرگوئی کے ساتھ ساتھ زبان کی خدمت کا ایسا فریضہ انجام دیاجس سے انھیں اپنے عہد کے دیگر شعرا میں ممتاز حیثیت حاصل ہوئی-JALAL LAKHNAVI

جلال لکھنوی ہماری کلاسیکی ادبی تہذیب کے ایسے نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے مطالعے کے بغیر ہم اپنی شعری روایت کی تفہیم کا پورا حق ادا نہیں کر سکتے دیگر بہت سے شعرا کے مقابلے میں جلال کا ادبی مرتبہ اس لئے بھی امتیازی قرار پاتا ہے کہ انھوں نے شعرگوئی کے علاوہ اردو زبان اور فن شعر سے متعلق نثری تصانیف کی صورت میں بھی گراں بہا کارنامے انجام دیے۔ان خیالات کا اظہار شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسر احمد محفوظ نے آواز چیرٹیبل ٹرسٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے لکھنؤ کا نمائندہ شاعر:جلال لکھنوی کے موضوع پر منعقد سمینار میں کلیدی خطبہ کے دوران لکھنؤ کے آل انڈیا کیفی اعظمی اکیڈمی میں کیا۔JALAL LAKHNAVI

انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ جلال کی تصانیف پر ایک نظر ڈالنے سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ شعر گوئی کے علاوہ انھیں جن میدانوں سے خصوصی دلچسپی تھی،ان میں زبان کے اصول وقواعد، بالخصوص فن شعر میں زبان کے استعمال کی صورتیں شامل ہیں۔پروفیسر احمد محفوظ نے اس بات پر زور دیا کہ جلال کا خاص وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے شعرگوئی کے ساتھ ساتھ زبان کی خدمت کا ایسا فریضہ انجام دیاجس سے انھیں اپنے عہد کے دیگر شعرا میں ممتاز حیثیت حاصل ہوئی۔

اس موقع پر انھوں نے کہا کہ جلال کے رنگ سخن کو ایک مخصوص طرز شعرگوئی سے منسوب سمجھنا چاہیے، جسے مضمون آفرینی کہا گیا ہے۔تفہیم جلال کے تناظر میں انھوں نے دلی اور لکھنؤ کے دبستان کے بارے میں یہ بھی کہا کہ کلاسیکی شاعری خواہ دہلی کی ہو یا لکھنؤ کی،اگر اسے مجموعی صورت میں دیکھا جائے اور خاص کر کلاسیکی شعری تہذیب اور تصورات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں ان فرضی خانہ بندی کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوگی۔

صدارتی خطاب میں پروفیسر احسن الظفر نے کہا کہ یہ ایک اہم موضوع پر سمینار کا انعقاد کیا گیا۔ہماری شعری روایت اور تہذیب کے ایک اہم شاعر کے طور پر جلال کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات خوش آیند ہے کہ نئی نسل بھی اس طرح کے اہم موضوعات پر نہ صرف لکھ رہی ہے بلکہ اپنا ایک واضح نظریہ بھی رکھتی ہے۔

پروفیسر ندیم احمد نے جلال لکھنوی کو ایک اہم شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دبستان لکھنؤ کے جن شعرا کا ذکر تواتر کے ساتھ ہوتا ہے ان میں جلال لکھنوی کا ایک اہم نام ہے۔انھو ں نے مختلف اشعار کا تجزیہ کرتے ہوئے جلال کی فنی ہنر مندی کو واضح کیا۔پروفیسر ندیم احمد نے کہا کہ دبستان لکھنو کے ایک قابل فخر شاعر کو یاد کرنا بے لوث ادبی کارگزاری ہے جس کے لیے سوسائٹی مبارک باد کی مستحق ہے۔

ڈاکٹر عمیر منظر نے جلال لکھنوی کے شعری امتیاز ات کے حوالے سے مقالہ پڑھا۔انھوں نے کہا کہ جلال محض شاعر نہیں تھے بلکہ شاعرکے ساتھ ساتھ لغت اور زبان پر غیر معمولی دسترس رکھتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار میں زبان و بیان کا ایک خاص لطف پایا جاتا ہے۔ڈاکٹر عمیر منظر نے کہا کہ جلال نے امیر اور داغ کے ساتھ اپنی شاعری کا چراغ روشن کیا تھا ان تینوں شعرا کی بہت سی ہم طرح غزلوں میں جلال کی انفرادیت دیکھی جاسکتی ہے۔

موجودہ عہد میں جلال کی شاعری کی معنویت کے موضوع پر مقالہ پڑھتے ہوئے ڈاکٹر نور فاطمہ نے کہا کہ ان کی شاعری کے مطالعے کا ایک پس منظر یہ بھی بنتا ہے کہ نئی نسل کو جلال کی شاعری پڑھ کر زبان کا سلیقہ،رعایت لفظی،مناسبات لفظی، صوتی آہنگ،محاوروں کی صحیح ادائیگی اور روز مرہ کی زبان کا غیر معمولی استعمال سیکھنا چاہیے۔ کیونکہ جلال نے اپنے معمولی اشعار میں بھی زبان کی صفائی،مترنم الفاظ، بندش کی چستی اور محاوروں کے برجستہ استعمال پر خاص توجہ صرف کی ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے کہا کہ جلال کی شاعری پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ زبان کے تمام داو ئپیچ اور اس کے فنکارانہ استعمال پر دسترس رکھتے ہیں۔یہ جلال کی ایسی خوبی ہے جو انہیں اپنے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے مختلف اشعار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جلال کی شاعری میں زبان کا رچا ہوا ذوق اور شاعرانہ وسائل کا ہنر مندانہ طریق کار ان کی نکتہ رسی اور بالغ نظری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ان تمام خوبیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بھلا اس بات کا اعتراف کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ جلال کی شاعری میں استفادے کی بھر پور صلاحیت ہے اور موجودہ عہد میں ان کی شاعری کا مطالعہ بے حد مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتاہے۔

مسئلہئ تذکیر وتانیث اور مطالعہئ جلال کے موضوع پر ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے مقالہ پڑھا۔انھوں نے کہا کہ تذکیر وتانیث کا اختلافی مسئلہ اردو زبان میں بہت پہلے سے ہے، اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جلال لکھنوی نے ’مفید الشعرا‘ میں اس سے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس میں ترجیح دبستان لکھنؤ کو دی۔ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے کہاکہ جلال لکھنوی نے اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ جن لفظوں میں اہل زبان تذکیر وتانیث کے معاملے میں متفق ہیں، اس کو محض بیان کردیا ہے، اس کی مثال نہیں دی ہے، جب کہ جن لفظوں میں اہل زبان تذکیر وتانیث کے معاملے میں متفق نہیں ہیں، اس کو مع مثال پیش کیا گیاہے۔ ڈاکٹر شاہ نواز نے کہا کہ جلال لفظ املا کی تذکیر کے قائل ہیں، لیکن اسے مختلف فیہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لکھنؤ کے استاد شاعر میر رشک نے املا کو مونث استعمال کیا ہے۔ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے اس بات پر زور دیا کہ جلال لکھنوی کے اس رسالے کے بعض مندرجات سے اختلاف کیا گیا، لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا۔جلال نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اس لیے قابل غور ہیں کہ انھوں نے تذکیر وتانیث میں لفظ کے استعمال اور معنی پر زور دیا۔اختلاف کے باوجود جلال کی اس کاوش کی ہمیشہ پذیرائی ہوئی۔

ڈاکٹر محضر رضا نے کہا کہ جلال سے ہمیں زبان وادب کا ایک شعور ملتا ہے۔انھوں نے زبان اور لغت کے سلسلے میں جو کام کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔

ڈاکٹر گلزار حسن نے کہا کہ دبستان لکھنؤ کے جن شعرا نے نثر اور شاعری دونوں حوالوں سے قابل قدر خدمات انجام دی اور یادگار سرمایہ چھوڑا ان میں جلال کا شمار ہوتا ہے۔گلزار حسن نے کہا کہ لغت اور زبان و بیان کے باب میں جلال کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

محمد سعید اختر نے دبستان لکھنؤ کا اہم شاعر:جلال لکھنوی کے موضو ع پر مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ جلال لکھنوی کی غزلیں عشق و محبت، رندی و سرمستی کے علاوہ صوفیانہ مضامین سے بھی عبارت ہیں۔مختلف اشعار کے تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی کی اس رائے کا بطور خاص ذکر کیا کہ جس میں انھوں نے آتش کے رنگ اورمزاج کو ان کی شاعری کا حقیقی رنگ قرار دیا ہے اور جلال کے یہاں جو دہلوی رنگ ہے وہ آتش ہی کی دین ہے۔

میر ضامن علی جلالؔ لکھنوی بطور رباعی گوکے موضوع پر مجتبی حسن صدیقی نے مقالہ پڑھا۔انھوں نے کہا کہ جلالؔ نے کل ۷۱ رباعیاں کہیں ہیں۔جو مختلف روایتی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، ان رباعیوں میں جلال کے استادانہ رنگ کا اظہار ہوا ہے۔مجتبی حسن نے کہا کہ جلال کی ان رباعیوں میں دل کی عظمت،محبوب کے حسن کی تعریف،شوخی و اداکا بیان،ہجر کی کلفتوں کا ذکر اور ناصح کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ حمد و منقبت کے مضامین بھی پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:رامپور: عالمی یوم اردو پر محبان اردو کی پروقار تقریب


سمینار کی صدارت معروف فارسی اسکالر پروفیسر احسن الظفر نے کی۔محمد عاصم نے قرآن پاک کی تلاوت کی جبکہ سعدیہ خاتون نے جلال کی ایک غزل ترنم میں پیش کی سوسائٹی کے صدر ضرغام الدین نے کلمات تشکر ادا کیے۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیا۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.