ETV Bharat / literature

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 20, 2024, 9:55 PM IST

Urdu Poet Ahmed Faraz
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

Urdu Poet Ahmed Faraz پاکستان کے جن شعرا کو عالمی مقبولیت حاصل ہے ان میں احمد فراز کا نام بھی شامل ہے۔ احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا، وہ 12 جنوری سنہ 1931 کو پاکستان کی ریاست خیبرپختون خواہ کے ضلع کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ 25 اگست 2008 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔

حیدرآباد: احمد فراز کی پیدائش پاکستان کوہاٹ کے ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ شاعری کا فن انہیں والد سے وراثت میں ملا۔ ان کے والد سید محمد شاہ برق فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔ احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا لیکن ان کی مادری زبان پشتو تھی۔ باوجود اس کے انہوں نے چار زبانوں پر عبور حاصل کر اردو زبان میں شاعری کی سمت تلاش کی۔

ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ سائنس اور ریاضی میں تعلیم آگے جاری رکھیں لیکن فراز کا فطری میلان ادب و شاعری کی طرف تھا۔ فراز نے کبھی عشق، کبھی انقلاب کبھی دوستی تو کبھی ماضی کے حالات اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں۔۔۔

اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح

آسمانوں سے نئے لوگ اتارے جائیں

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے

تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

فراز اپنے عہد کے سچے ترجمان تھے، انہوں نے دیگر انقلابی شعرا کی طرح جنرل ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف اشعار کہے، جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کیا گیا جو چھ برس تک جلاوطنی کا عذاب بھی سہتے رہے۔

فراز عام طور سے رومانی شاعر کے طور پر عوام میں مقبول ہیں، ان کی مشہور زمانہ غزل 'سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں' عام و خاص کی زبان زد ہے۔ اس کے علاوہ محبوب سے جدائی پر مبنی غزل 'رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ' بھی بہت معروف و مقبول غزل ہے۔ دونوں غزل یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی

سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں

سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے

سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی

جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں

مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں

پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں

کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا

سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے

کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں

فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ

تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو

رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم

اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں

یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ

شہنشاہ موسیقی کے نام سے مشہور مہدی حسن نے جب مذکورہ غزل 'رنجش ہی سہی' کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا تو پہلا مصرعہ عوام میں ضرب المثل کی حیثیت سے مشہور ہوگیا، جو آج بھی قائم ہے۔ سنہ 2004 میں احمد فراز کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے 'ہلال امتیاز' کے ایوارڈ سے نوازا۔ لیکن پاکستانی صدر پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاج درج کراتے ہوئے یہ اعزاز واپس کردیا۔

سنہ 2017 میں جب پاکستانی کوک اسٹوڈیو کی طرف سے سیزن 10 میں مذکورہ غزل 'رنجش ہی سہی' کو علی سیٹھی نے آواز دی تو نئی نسل کے نوجوانوں تک احمد فراز ایک بار پھر جا پہنچے۔ اور یہ غزل آج بھی شائقین کی زبان زد ہے۔ ان کے اب تک 14 شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں جاناں جاناں، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ،تنہا تنہا، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ شامل ہیں۔

طویل علالت کے بعد 25 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.