ETV Bharat / international

تجارتی جنگ: چین اور روس کی جگل بندی سے امریکہ کی مشکلات میں اضافہ - Trade War

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 25, 2024, 11:04 PM IST

Updated : May 26, 2024, 7:58 AM IST

امریکہ اور چین کے بیچ جاری تجارتی جنگ سنگین رخ اختیار کرتے جا رہی ہے۔ تازہ ترین پیش رفت میں چین کے خلاف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے امریکہ نے سینکڑوں چین کی مصنوعات پر پابندی عائد کر دی جب کہ روس نے بھی اس تجارتی جنگ میں شامل ہوتے ہوئے امریکی اثاثے ضبط کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاملے میں چین اور روس کی جگل بندی کی وجہ سے امریکہ کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔۔۔۔ صحافی امام الدین علیگ کا تجزیہ

تجارتی جنگ: چین اور روس کی جگل بندی سے امریکہ کی مشکلات میں اضافہ
تجارتی جنگ: چین اور روس کی جگل بندی سے امریکہ کی مشکلات میں اضافہ (File Photo: Etv Bharat)

واشنگٹن: دنیا پر حکمرانی اور دبدبے کے لیے امریکہ اور چین کے بیچ تجارتی جنگ (Trade War) کی شدت آئے روز بڑھتی جا رہی ہے۔ چین مصنوعات پر انحصار کم کرنے اور مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے نام پر امریکہ نے چین سے درآمد کی جانے والی سینکڑوں اشیاء پر پابندی لگا دی ہے، نیز دیگر کئی سامانوں پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ امریکہ کے نمائندہ تجارتی دفتر (USTR) نے چین کی 429 مصنوعات میں سے تقریباً نصف پر محصولات مزید بڑھا دیے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ چین کے ساتھ جاری یہ تجارتی جنگ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شروع کی تھی۔ 1974 کے تجارتی ایکٹ کے سیکشن 301 کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے 300 بلین ڈالر سے زائد کی چین کی اشیاء کی درآمد پر اضافی ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔ حالانکہ انہوں نے بعض صنعتوں میں کمپنیوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کچھ مصنوعات کے لیے ٹیکس میں چھوٹ بھی دی۔

ٹرمپ سے وراثت میں ملی اس جنگ سے امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن بھی خود کو دور نہ رکھ سکے۔ انہوں نے اس جنگ کو ایک نئے محاذ پر لے جاتے ہوئے ایک حالیہ فیصلے میں چین کی الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) پر ٹیکسوں کو چار گنا کرنے اور سولر سیل، سیمی کنڈکٹرز اور دیگر کئی اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کا اعلان کیا۔

امریکی حکومت کی جانب سے چین کے پروڈکٹس پر پابندیاں عائد کرنے اور ٹیکسوں میں اضافے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تنازع مزید بڑھنا طے مانا جا رہا ہے۔ امریکہ کی اس کارروائی کے نتیجے میں چین نے بھی کارروائی کرنے کا انتباہ دیا ہے۔ جوابی کارروائی کے طور پر چین جلد ہی امریکہ سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر پابندیاں لگا سکتا ہے اور ٹیکسوں میں بھی اضافہ کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

  • تجارتی جنگ میں روس کی انٹری

وہیں گذشتہ روز روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے واشنگٹن کی جانب سے روسی اثاثوں کی ممکنہ ضبطی کے ردعمل میں امریکی اثاثوں کو ضبط کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ روس نے یہ فیصلہ امریکہ میں روسی اثاثوں کی ضبطی کے خدشے کے پیش نظر کیا۔ خبر رساں ایجنسی ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے تحت روسی حکومت کا ایک خصوصی کمیشن منقولہ اور غیر منقولہ امریکی جائیدادوں اور اثاثوں کی نشاندہی کرے گا۔ اس کے بعد روسی کمپنیوں میں امریکی حصص اور دیگر جائیدادوں کو ضبط کر کے امریکہ کی جانب سے پہنچائے جانے والے ممکنہ نقصانات کی بھرپائی کی جائے گی۔

یہ ایک طرح سے امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ میں روس کی راست شمولیت کے برابر ہے۔ دراصل چین اور روس سے امریکہ کی دشمنی نے دونوں ملکوں کو قریبی اتحادی بننے کا موقع فراہم کیا۔ یوکرین جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کردار، پھر چین پر آئے روز تجارتی پابندیوں نے ماسکو اور بیجنگ کے دشمنوں اور ان کے مفادات میں یکسانیت پیدا کر دی جس نے ان دونوں کو ایک ساتھ آنے پر مجبور کر دیا۔

  • دنیا پر حکمرانی کے لیے رسہ کشی

دراصل دنیا بھر میں چین کے پھیلتے اثر و رسوخ کے پیش نظر امریکہ کو اپنا سپر پاور کا درجہ خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ چین بھی نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا نعرہ دے کر اپنے عزائم کو برملا اظہار کر چکا ہے۔ ایسے میں جہاں امریکی خیمہ اپنی سپرپور کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، نیز مخالف خیمے پر پابندیاں لگا کر اس کی رفتار کو دھیما اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں چین امریکہ مخالف طاقتوں کو ساتھ لے کر اور دنیا بھر میں اپنی تجارت کا جال پھیلا کر امریکہ کو پچھاڑنے کے لیے پورا زور لگا رہا ہے۔

  • ترقی پذیر ملکوں کے لیے آزمائش

ایسے میں دو بڑی طاقتوں کی یہ کھیچ تان ترقی پذیر اور غیر وابستہ (Non-Aligned) ممالک کے لیے بڑی آزمائش بنتی جا رہی ہے۔ ان کے لیے دونوں خیموں سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوجا رہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے یہ بدلاؤ صاف محسوس کیا جا رہا ہے کہ دنیا پر امریکہ کا دبدبہ پہلے سے کمزور ہوا ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے بھی عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال کو بھانپتے ہوئے ''انتظار کرو اور دیکھو'' کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ یہ آنے والا وقت طے کرے گا کہ طاقت کا پلڑا کس خیمے کے حق میں جھکتا ہے، لہٰذا غیر وابستہ ممالک کے لیے کسی بھی خیمے کی اندھی حمایت یا کھلی دشمنی کہیں سے بھی دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔

  • دنیا پر بڑھتے خطرات کے بادل

یہ بات بھی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ حالیہ دہائیوں میں جہاں امریکہ کے دشمنوں کی تعداد بڑھی ہے، وہیں اس کے مخالف خیمے کے بیچ تال میل اور ان کی بے خوفی میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کی پریشانیاں بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ موجودہ وقت جہاں روس امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے وہیں، اسرائیل کی اندھی حمایت کے سبب بھی واشنگٹن الگ تھلگ پڑتا نظر آ رہا ہے۔ وہیں بیجنگ کے ساتھ ٹریڈ وار، یوکرین اور غزہ جنگ سمیت کئی محاذوں پر الجھے امریکہ کے برعکس چین اپنے بھرپور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف ہے۔ حالانکہ عسکری محاذ پر دیکھا جائے تو اب تک کسی جنگی محاذ پر چین کی طاقت کا مظاہرہ نہیں ہوا ہے جب کہ امریکہ کئی محاذوں پر اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایسے میں دونوں کی عسکری طاقت کا حقیقی موازنہ بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر یہ تجارتی جنگ یوں ہی مزید بڑھتی رہی اور اسی طرح دنیا دو خیموں میں بٹتی رہی تو مستقبل میں یہ کشمکش ایک بڑے عسکری ٹکراؤ میں تبدیل ہوسکتی ہے، جس سے پوری دنیا کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: روس نیٹو ممالک یا یورپ پر حملہ نہیں کرے گا لیکن --- - Putin On NATO

اسرائیل نے آئی سی جے کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا، کہا، رفح میں فوجی کارروائی جاری رہے گی

Last Updated : May 26, 2024, 7:58 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.