ETV Bharat / bharat

بھارت کے بڑھتے ہوئے عوامی قرض کے بوجھ سے نجات کیسے ملے - India’s Growing Public Debt Burden

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Apr 18, 2024, 5:14 PM IST

بھارت میں قرض کا گراف لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں انتخابات جیتنے کے لئے عوام سے بہت سے وعدے کرلیتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے قرض لیتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے زریعہ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ملک کے اوپر قرض بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے، پروفیسر مہندر بابو کُرُوا بتا رہے ہیں جواتراکھنڈ کی ایچ این بی،سرینگر گڑھوال سینٹرل یونیورسٹی میں بزنس مینجمنٹ کے شعبہ کے سربراہ ہیں۔

Tackling India Growing Public Debt Burden
Tackling India's Growing Public Debt Burden

حیدرآباد: ملک بھر میں عام انتخابات اور مختلف ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں اورعوام بھی ان انتخابات میں پوری طرح سے مصروف ہے۔ انتخابی وعدے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کے ساتھ کیے جا رہے ہیں، جن میں انہیں اقتدار میں آنے کی صورت میں مفت چیزیں مہیا کرانے اور سماجی بہبود کےلئے بڑے اخراجات پورے کرنے کے وعدے کئے جارہے ہیں۔ تاہم، وہ جو وعدے کریں گے وہ حکومت کے خزانے سے ہی پورے کیے جائیں گے اور اُس کے متعلقہ حکومتوں کے مالی حالات پر اثرات مرتب ہوں گے۔

بہت سے مواقعوں پر حکومتیں انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بے تحاشا قرضے لے لیتی ہیں، اس طرح بہت بڑا قرضہ ملک پر ہو جاتا ہے، جس سے سرکاری خزانے اور ٹیکس دہندگان پر بوجھ پڑتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ملک کے عوامی قرضوں کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور اس پر غور کیا جائے کہ ان قرضوں کو کس طرح کم کیا جائے۔

وزارت خزانہ، حکومت ہند کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ عوامی قرضوں کے انتظام کی سہ ماہی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ 2023 کے ستمبر میں حکومتِ ہند کا مجموعی قرض 157.84 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر دسمبر دوہزار تیئس میں بڑھ کر 160.69 لاکھ کروڑ روپے ہو گیا۔

اس رپورٹ کے ذریعہ اکتوبر اور دسمبر 2023 کے درمیان عوامی قرضوں کے انتظام اور نقدی کے انتظام کے کاموں کا تفصیلی حساب کتاب فراہم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اہم پہلوؤں پر بھی تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ میں تشویش کا باعث بننے والا اہم نکتہ یہ ہے کہ مالی سال 2023-24 کی تیسری سہ ماہی کے دوران ملک کی مجموعی قرض کا 90 فیصد حصہ عوامی قرضوں کا تھا۔

بنیادی طور پر، سرکاری قرض یا عوامی قرض ریاستوں اور مرکزی حکومتوں کی طرف سے واجب الادا غیر ملکی اور گھریلو قرضے اور دیگر قرضہ جات ہیں جن پر انہیں اصل رقم کے ساتھ سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ 'دیگر قرضہ جات' میں پراویڈنٹ فنڈز، چھوٹی بچت کی اسکیمیں اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں وغیرہ کو جاری کردہ خصوصی سیکیورٹیز شامل ہیں۔

تاہم حکومتوں کے پاس قرض لینے کی بھی حد ہوتی ہے اور یہ حد مالیاتی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ ایکٹ کے ذریعے طے کی جاتی ہے، جسے دو ہزار تین میں این ڈی اے کی حکومت نے نافذ کیا تھا۔ اس ایکٹ کے مطابق، عام حکومت کے قرض کو 2024-25 تک مجموعی گھریلو پیداوار کے ساتھ 60 فیصد تک لایا جانا تھا، اور مرکز کی اپنی کل بقایا قرضہ جات اس وقت کے شیڈول کے اندر چالیس فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چائے تھیں۔

تاہم یہ اہداف ایک مدت تک حاصل نہیں ہو سکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کووڈ 19 ہے جس نے دو ہزار بیس میں وبا کی صورت میں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وبائی امراض سے پیدا ہونے والے معاشی جھٹکے اور سپلائی چین میں رکاوٹوں نے ملک کے مالیاتی تانے بانے پر بہت بُرے اثرات مرتب کیے، کیونکہ ٹیکس کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔

حکومتوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ قرض لینے کا سہارا لیں، تاکہ وبائی امراض کے دوران لوگوں کی آمدنی اور استعمال کو فروغ دینے والی اسکیموں پر ہونے والے سرکاری اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔

اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ مرکز کا کل بقایا قرض جو دو ہزار اٹھارہ انیس میں جی ڈی پی کا 48.1 فیصد تھا دو ہزار بیس میں پچاس فیصد اور دوہزار اکیس میں یہ قرضہ بڑھ کر ساٹھ فیصد ہو گیا۔

اگرچہ یہ 2022-23 میں قدرے کم ہو کر 55.9 فیصد ہو گیا، لیکن یہ دوبارہ 2023-24 میں 56.9 فیصد تک چلا گیا اور 2024-25 کے دوران جی ڈی پی کا 56 فیصد بجٹ رکھا گیا۔ کسی بھی پیرامیٹر کے مطابق یہ نسبتاً زیادہ ہے اور اس پر قابو پانا ہبہت ضروری ہے۔

قرض کے بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کرنا:

ایک بڑھتی ہوئی معیشت کے طور پر، بھارت کو اپنی ترقی کی راہ میں فنڈز دینے کے لیے کافی سرمائے کی ضرورت ہے اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی مالیاتی پالیسی کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک پر قرض کا بوجھ کم ہو۔ اس طرح، ملک کو قرض کے بوجھ سے چھٹکارہ دلانے کے لئے دو پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا پرائیویٹ قرضہ ہے اور دوسرا عوامی قرضہ۔

اس تناظر میں یہ بات قابل غور ہے کہ مالیاتی خدمات کی ایک فرم موتی لال اوسوال کی جانب سے نو اپریل دو ہزار 2024 کو جاری کی گئی رپورٹ کے تخمینے کے مطابق بھارت کا گھریلو قرض چالیس فیصد کو چھو کر اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ نجی قرضوں کے انتظام کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کا مقصد ملک میں گھریلو اور غیر مالیاتی کارپوریٹ قرضوں کی سطح کی مسلسل نگرانی ہو ساتھ ہی گھریلو پیداوار اور لئے گئے قرض میں توازن ہو۔

دوسری طرف، عوامی قرض کے انتظام کے لیے ایک مضبوط مالیاتی فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے، جو اخراجات اور قرض کی پائیداری کے توازن کو برقرار رکھ سکے۔ یہ قرض، جی ڈی پی کا مثالی تناسب حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم، بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں اس طرح کے مالیاتی ڈھانچے کو تیار کرنا بہت مشکل تو ہے مگر ضروری بھی ہے۔

پہلا طریقہ یہ ہے کہ اضافی ٹیکس ریونیو پیدا کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنا کر قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جائے، اسی کے ساتھ ہی غیر پیداواری اخراجات کو بھی محدود کیا جائے۔ ٹیکس انتظامیہ اور ٹیکس وصولی میں بہترکارکردگی لا کر ٹیکس ریونیو کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس گوشواروں کی کراس میچنگ، ٹیکس چوری کو روکنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔

ملک کو وسیع پیمانے پر قرض کے جی ڈی پی کے تناسب پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ حکومتی قرضوں کی سطح کو ہمیشہ ملک کے جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر ماپا جاتا ہے۔ اگر حکومتی قرض کو کم کرنا مشکل ہے تو، ایک اور آپشن ہے یعنی جی ڈی پی (ڈینومینیٹر) کو بڑھانا۔ جی ڈی پی میں اضافہ خود بخود جی ڈی پی کے تناسب سے بہتر قرض لے کر آئے گا اور حکومت کی مالی پوزیشن کو بہتر بنائے گا۔

دونوں آپشنز میں، ریاستیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہیں اپنے قرض لینے کے معاملے میں کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور انتخابی فوائد کے لیے غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے، اخراجات کے معیار کو بہتر بنانے اور مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر توجہ دینے سے وہ بہتر مالیاتی پوزیشن میں آسکتا ہے اور ریاستوں کو ترقی کی بلند رفتار پر لے جا سکتا ہے۔

فزیکل انفراسٹرکچر کے علاوہ انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری اور دوسرے اقدامات کے ذریعے سرکاری اخراجات میں معیار کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سماجی شعبےمیں اسکیموں پر اخراجات کو حل کرنے کے لیے، پالیسی ساز، کو ہر آپشن کو ذہن میں رکھ کر پالیسی بنانا چاہئے جس سے ریاستوں میں قرض کا بوجھ کم ہو۔ مگر وہ لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں میں توازن برقرار نہیں رہتا ہے۔

مرکز اور ریاستیں دونوں اپنی متعلقہ اقتصادی صلاحیتوں اور مالی رکاوٹوں پر منحصر ہو کر اوپر بیان کیے گئے دونوں طریقوں میں سے کسی ایک یا مجموعہ پر عمل کر سکتے ہیں۔ اس سے ملک کے لیے کافی مالی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور نئی سرمایہ کاری کو فروغ ملتا ہے۔ آخرکار یہ معاشی ترقی کی طویل مدتی پائیداری کا باعث بنتا ہے اور ملک کے قرضوں کے بوجھ کو بھی کم کرتا ہے۔ ایک بار جب انتخابی بخار کم ہو جاتا ہے اور نئی حکومتیں اقتدار سنبھالتی ہیں، تو قرض کا انتظام نئی حکومتوں کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہیے۔ مرکز اور ریاستوں کو اپنا فائدہ بالائے طاق رکھ کر معیشت کے فروغ اور قرض کی ادائیگی کس طرح ہو اس پر غور و فکر کرنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.