اردو

urdu

'اودھ کی اردو شاعری میں ترقی پسند و جدیدیت کے اثرات تھے'

By

Published : Apr 1, 2021, 8:49 AM IST

آزادی کے بعد اودھ کی اردو شاعری میں ترقی پسند اور جدیدیت دونوں طرح کے شعراء ملتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جدیدیت یا ترقی پسند شعراء میں کن کا پلہ بھاری ہے۔

'اودھ کی اردو شاعری میں ترقی پسند و جدیدیت کے اثرات تھے
'اودھ کی اردو شاعری میں ترقی پسند و جدیدیت کے اثرات تھے

ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں اترپردیش اردو اکادمی کے اشتراک سے اپیکس اقراء فاؤنڈیشن کی جانب سے بعنوان 'آزادی کے بعد اودھ کی اردو شاعری پر ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے اثرات' پر ایک سمینار آل انڈیا کیفی اعظمی اکادمی میں منعقد کیا گیا۔ جس میں اردو زبان و ادب کی مشہور و معروف شخصیات نے شرکت کی۔



ریسرچ اسکالر محمود ندوی نے مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اودھ کی غزل کی ابتدا کلاسیکل رجحانات سے رچی بسی فارسی زبان کی انتہا سے ملتی ہے۔ فارسی غزل کی روایت کا یہ سلسلہ ایک دو سال پرانا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔

'اودھ کی اردو شاعری میں ترقی پسند و جدیدیت کے اثرات تھے



انہوں نے بتایا کہ فارسی نے عربی سے استفادہ کیا اور عربی زبان و ادب نے یونان و عجم سے استفادہ کیا ہے۔ اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ اودھ کی غزل میں عشق کا تصور اور عالمی ادب کا نچوڑ یا اس کی آخری کڑی معلوم ہوتی ہے۔




پروفیسر جاں نثار نے مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 1935 میں اسرار الحق مجاز کو شعر کہتے ہوئے پانچ برس ہی ہوئے تھے اور بھارت میں ترقی پسند تحریک کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ مجاز نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا۔

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں

جنس الفت کا طلب گار ہوں میں

عشق ہی عشق ہے دنیا میری

فتنہ عقل سے بیزار ہوں میں

خواب عسرت میں ہیں ارباب خرد


حور و غلماں کا یہاں ذکر نہیں

نوع انساں کا پرستار ہوں میں


اپیکس اقراء فاؤنڈیشن کی سیکرٹری عذرا انجم نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ آزادی کے بعد اودھ کی جو اردو شاعری ہے، اس پر ترقی پسند و جدیدیت کے اثرات تھے۔ ترقی پسند شعراء نے مزدوروں کے لیے عوام کے لئے شاعری کی تھی۔جدیدیت کا یہ رجحان تھا کہ شاعر کا اپنا بھی ذہن ہوتا ہے اور وہ اپنے لئے شاعری کرے گا۔ آزادی کے بعد یہ دونوں ہی باتیں نظر آتی ہیں، اب کس کا پلہ بھاری ہے یہ کہنا مشکل ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details