مالیگاؤں: ریاست مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں میں پاورلوم صنعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ اس شہر میں تین لاکھ سے زائد پاورلوم اور دو لاکھ سے زیادہ مسلم نوجوان مزدور ہیں جو پاورلوم صنعت سے وابستہ ہیں۔ موجودہ دور کے حالات ایسے ہیں جہاں اپنی صنعت کو جاری رکھنا اپنے سرمایہ کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ پاورلوم صنعت کو بچانے کے لیے حکومت کی جانب سے طویل اور مشکل ترین راستے بتائیں جارہے ہیں جو مالیگاؤں کے بنکروں کے لیے ناممکن ہے۔ یہاں کے بنکروں کو حکومت سے فوری طور پر کوئی حل یا مدد کی امید ہے کیونکہ شہر مالیگاؤں کے پچاس فیصد پاورلوم بند ہوچکے ہیں اور کچھ قرض کے بوجھ کی وجہ سے پاورلوم کو فروخت کرکے جگہ کو شادی ہال میں تبدیل کررہے ہیں۔ اور جو بچے بھی ہیں تو اب نئی ٹیکسٹائیل پالیسی اور سرکاری بجلی کمپنی کی تجویز کے سبب تذبذب میں ہیں۔
اس تعلق سے مالیگاؤں پاورلوم ادیوگ ویگاس سمیتی کے صدر ساجد انصاری نے نمائندے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ پاورلوم صنعت کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ریاستی حکومت کے محکمہ ٹیکسٹائیل کمشنر کو نئی ٹیکسٹائیل پالیسی کے حوالے سے دس نکاتی پر مشتمل ایک مطالباتی مکتوب ٹیکسٹائیل کمیٹی کے رکن ڈاکٹر پنجاری شیخ سلیم کے ذریعے روانہ کیا۔ انہوں مزید کہا کہ 2007 میں مالیگاؤں کو D+ زون قرار دیا گیا تھا۔ لیکن پھر مہاراشٹر ویلیو ایڈڈ ٹیکس ایکٹ 2002 نے پاورلوم کی پیداوار کو قرار دیا۔ اس لئے مالیگاؤں کو سبسڈی کی شکل میں کوئی مؤثر ریلیف فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔ تاہم سنٹرل گڈز اینڈ سروس ٹیکس ایکٹ 2017 کے متعارف ہونے کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے جبکہ جہاں کپڑوں کو قابل ٹیکس بنایا گیا ہے۔