ٹاڈا عدالت نے رنبیر پینل کوڈ کے سیکشن 302، 307 اور آرمز ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔
اس سے قبل کورٹ نے اس کیس سے متعلق یاسین ملک کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہونے کا بھی ذکر کیا تھا۔
کالعدم تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے رہنما کے خلاف جموں کی ٹادا عدالت میں 90 ۔ 1989 میں اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے اور انڈین ایئر فورس کے چار اہلکاروں کو قتل کرنے کا کیس زیر سماعت ہے۔
دراصل گزشتہ برس اکتوبر میں یاسین ملک، جموں کی ٹاڈا عدالت میں پیش ہونے والے تھے لیکن تہاڑ جیل کے انتظامیہ نے انہیں عدالت میں پیش کرنے سے انکار کیا تھا۔ تب حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وزارت داخلہ نے انہیں یاسین ملک کو کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اس سے قبل عدالت نے کہا تھا ابتدائی شواہد کے مطابق یاسین ملک، علی محمد میر، منظور احمد صوفی عرف مصطفیٰ، جاوید احمد میر عرف نلکہ، ننھا جی عرف سلیم، جاوید احمد زرگر اور شوکت احمد بخشی، بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کی ہلاکت میں ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ یاسین ملک کے خلاف پہلا مقدمہ 25 جنوری 1990 کو سرینگر کے راول پورہ میں پیش آنے والے ایک واقعہ سے متعلق ہے جس میں انڈین ایئر فورس کے اہلکاروں پر عسکریت پسندوں نے فائرنگ کی تھی اور اس فائرنگ میں اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ سمیت چار جوان موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ دوسرا کیس سابق وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے کا ہے۔