آئی بی اور را کے سابق سربراہ اے ایس دُلت جنہوں نے ہمیشہ کشمیر، اس کے ہنگامہ خیز ماضی اور وادی کے سیاسی حالات پر تجسس کا اظہار کیا ہے کا خیال ہے کہ اب پاکستان کا کشمیر میں کوئی کردار نہیں ہے جیسا کہ وہ اب کھیل سے باہر ہوچکا ہے۔ دُلت نے ای ٹی وی بھارت کے سوربھ شرما کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہاکہ کشمیر میں ظاہری طور پر علیحدگی پسندی ختم ہو گئی ہے لیکن "یہ اب بھی زندہ ہے اور بند کمروں میں پک رہی ہے"۔ را کے سابق سربراہ نے کہاکہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کی وجہ سے سیکولر اقدار کو نقصان پہنچا ہے اور 1980 کی دہائی کے بعد سے کشمیر پہلے جیسا نہیں رہا۔ وہیں پاکستان میں عدم استحکام اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایک بار پھر سرگرم ہونے کی افواہوں اور اس کے بھارت پر اثرات سے متعلق دُلت نے کہا کہ میاں صاحب کے ساتھ بھارت کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔
انٹرویو کے اقتباسات:
ای ٹی وی بھارت: آپ، جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں، خاص طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد؟ کیا کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہے؟
اے ایس دُلت: ٹھیک ہے، سیاحت عروج پر ہے۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کشمیری تاجروں کے لیے ایک بڑی مثبت پیش رفت ہے۔ سیکورٹی کے محاذ پر اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اب پاکستان کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ آج بھی کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی کردار باقی نہیں ہے۔ لہٰذا، میں یہ کہوں گا کہ علیحدگی پسندی میں کمی آئی ہے لیکن دہشت گردی میں کمی نہیں ہوئی۔ ہم پونچھ اور راجوری میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں جو باعث تشویش ہے۔ چلیں اس کو یوں کہہ لیں، علیحدگی پسندی ختم ہو گئی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ابھی تک زندہ ہے اور بند کوٹھریوں کے نیچے پک رہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب پھٹے گا۔
ای ٹی وی بھارت: آپ کے ایک حالیہ مضمون میں، آپ دلیل دیتے ہیں کہ جماعت اسلامی کشمیر میں اپنی موجودگی بڑھا رہی ہے۔ آپ کیوں سوچتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے حالانکہ وزارت داخلہ نے 2019 میں اس پر پابندی لگا دی تھی؟
دُلت: جماعت اسلامی کشمیر کی جڑوں میں گھس چکی ہے جو میرے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ کشمیر ہمیشہ سیکولرازم کا مینار رہا ہے لیکن عسکریت پسندی کے بعد انہی اصولوں کو بنیاد پرستی سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن، اس وقت اس پابندی کے باوجود جو وزارت داخلہ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد لگائی تھی، اس نے جماعت کے سیاسی ہولڈ اور سپورٹ نیٹ ورک کے لحاظ سے زمین پر بہت کم اثر ڈالا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ اس تنظیم کے اراکین کو تو روک سکتے ہیں لیکن اس کے ہمدردوں کو نہیں روک سکتے۔ 5 اگست کے بعد کی بیگانگی اور ناامیدی نے کشمیریوں کی نفسیات کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور انہیں ناامید کر دیا ہے اور اس ناامیدی اور بیگانگی نے جماعت اسلامی جیسی تنظیموں کو خطے میں اپنے قدم جمانے کی بنیاد فراہم کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت: آپ نے کشمیر میں انتہائی ہنگامہ خیز وقت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ آپ موجودہ صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں خاص طور پر جب انتخابات کو بار بار ملتوی کیا جارہا ہے؟
دُلت: ناامیدی اور خاموشی ہے جو خطرناک ہے۔ ہمیں جمہوری عمل کی بحالی اور قبل از وقت انتخابات کی ضرورت ہے۔
ای ٹی وی بھارت: آپ نے اپنی آخری کتاب میں کہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ زیادہ مذہبی ہو گئے ہیں، آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟
دُلت: ڈاکٹر عبداللہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ جب 370 کی منسوخی کے بعد انہیں سات ماہ تک گھر میں نظر بند رکھا گیا تو اس کا ان پر بہت زیادہ اثر ہوا۔ کشمیر کی صورتحال، دہلی کے معاملات اور ان کی بڑھتی عمر ڈاکٹر عبداللہ کے زیادہ مذہبی ہونے کے پیچھے کے عوامل ہیں۔
ای ٹی وی بھارت: آپ نے وادی میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر فاروق بی جے پی سے ہاتھ ملا سکتے ہیں؟
دُلت: مفتی سعید (سابق وزیراعلیٰ) اور ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد ان کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا۔ وہ بی جے پی کے ساتھ جانے کا سوچ سکتے ہیں لیکن ان کا دل کبھی اس کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ وادی میں انتخابات کب کرائے جاتے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے یا لوک سبھا انتخابات کے بعد۔
ای ٹی وی بھارت: کیا کشمیر، بی جے پی کو ووٹ دے گا؟
دُلت: نہیں! کشمیری بی جے پی سے ناخوش ہیں اور شاید بی جے پی کو ووٹ نہ دیں۔ وہ جموں سے سیٹیں جیت سکتے ہیں لیکن وادی میں نہیں۔
ای ٹی وی بھارت: آپ نے کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے بیانات دیکھے ہوں گے۔ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔