موصولہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کشمیر میں ایک تین سالہ بچے کو اپنے نانا کی لاش کے بازو میں بیٹھے ہوئے دکھلائی جانے والی تصویر وائرل ہوئی تھی جس پر رعنا ایوب نے تبصرہ کیا تھا۔
رعنا ایوب نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ 'بھارت میں کشمیریوں کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔'
صحافی رعنا ایوب نے اپنے دوسرے ٹویٹر پیغام میں یہ بھی لکھا تھا کہ 'یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کی سرزمین کی فکر ہے لیکن ہمارے دلوں میں کشمیریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نیز وادی کشمیر میں ہونے والی اس قتل و غارتگری پر کسی کو افسوس نہیں ہے۔'
رعنا ایوب نے مزید لکھا تھا کہ 'ایک بھارتی ہونے کی حیثیت سے ان کا سر ان تمام چیزوں کو دیکھ کر شرم سے جھک جاتا ہے۔'
رعنا ایوب کے اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا میں انہیں مغلظات سے نوازا جانے لگا جس کا اسکرین شاٹ اتار کر انہوں نے نئی ممبئی پولیس کے حوالے کیا ہے جس میں انہیں جان سے مارنے اور جنسی زیادتی کیے جانے کی دھمکی دی گئی ہے۔'
رعنا ایوب نے جب اس کی شکایت نئی ممبئی پولیس کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کی تو مقامی کوپرکھیرنے پولیس اسٹیشن کے ایک افسر نے ان کے گھر آ کر ان سے ملاقات کی اور ان سے پوچھ گچھ کی ہے۔
رعنا ایوب نے بتایا کہ کل وہ اس ضمن میں پولیس کو اپنا بیان دیں گی اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ، فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر موصول ہونے والی ان دھمکیوں کی نقول بھی بطور ثبوت پیش کریں گی۔
رعنا ایوب کو میک گل نامی عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے گجرات 2002 مسلم کش فسادات کی اور پولیس کی جانب سے کیے جانے والے انکاؤنٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کتاب کی شکل میں شائع کی تھی جس کی قومی سطح پر تشہیر ہوئی تھی۔