اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

جموں و کشمیر: 'دوسال بعد بھی پرتشدد واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا'

سنہ 2019 کے اگست کی پانچ تاریخ کو جموں و کشمیر کو دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی حثیت کی منسوخی کے ساتھ ہی نہ مرکزی قوانین خطے میں نافذ ہوئے اور نہ ہی وادی میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں کے کام کرنے کے طریقے میں بدلاؤ آیا۔

خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے دوسال بعد بھی پرتشدد واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا
خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے دوسال بعد بھی پرتشدد واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا

By

Published : Aug 5, 2021, 7:35 PM IST

مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے دوسال بعد بھی پرتشدد واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا حالانکہ حکام نے اس بارے میں کئی دعوے کئے تھے۔ اگرچہ کشمیر میں عرصے سے سرگرم عسکری تنظیمیں حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، اور جیش محمد کی کارروائیوں میں کمی آئی لیکن انکی جگہ نئی تنظیمیں متعارف ہوئیں جن کے ذریعے کئی پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ ان تنظیموں میں دی ریزسٹنس فرنٹ یا ٹی آر ایف اور پیپلز انٹی فاسسٹ فرنٹ ( پی اے ایف ایف) قابل ذکر ہیں۔

ان نئی تنظیموں کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کا وادی میں سرگرم دیگر عسکری تنظیموں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ بیشتر نئی عسکریت پسند تنظیمیں اصل میں پرانی تنظیموں کے نئے نام ہیں۔

خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے دوسال بعد بھی پرتشدد واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا

کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کا کہنا ہے کہ نئے ناموں سے عسکری تنظیموں کو متعارف کرنا اصل میں یہ کوشش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ دکھایا جائے کہ کشمیر میں مقامی عسکریت پسند ہی سرگرم ہیں اور پاکستان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسند پاکستان کی درپردہ حمایت سے کام کررہے ہیں۔

وجے کمار کے مطابق وادی کی عسکریت پسند تنظیموں کے نام اب اسلامی طرز پر نہیں رکھے جا رہے ہیں۔ ماضی میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) ایسی ہی واحد علیحدگی پسند تنظیم تھی جس کا نام اسلامی طرز پر نہیں تھا۔لبریشن فرنٹ نے 2004 میں عسکری راستہ ترک کرکے سیاسی سرگرمیاں شروع کی تھیں لیکن حکام نے 2018 میں اس پر پابندی عائد کی۔

جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ 'یہ بات سچ ہے کہ پہلے سیکیورٹی فورسز نے ٹی آر ایف اور پی اے ایف ایف کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تاہم جب اُن کی جانب سے بار بار سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور دیگر پبلک پلیٹ فورمز پر حملوں کی ذمہ داری لینے کے دعوے کئے گئے تو پولیس ان کے طریقۂ کار کی تحقیقات کے لیے مجبور ہوئی۔'

اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'تصادم آرائی کے دوران ہلاک کیے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت سے ثابت ہوا کہ بیشتر ان میں سے حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ ان کے کام کرنے کا طریقہ تھوڑا مختلف تھا تاہم نظریہ ان کا وہی تھا۔ یہ نہ صرف کشمیر میں چل رہے عسکریت پسندی کو مقامی شکل دینا چاہتے تھے بلکہ یہ اس کی تشہیر بھی چاہتے تھے جس کے سبب یہ اکثر سماجی رابطہ ویب سائٹ پر ویڈیو شائع کرتے رہے'۔

برہان وانی کی تنظیم حزب المجاہدین اور ان نئی تنظیموں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے میں کیا فرق ہے؟

اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ 'پہلے کی عسکریت پسند تنظیمیں ایک عسکریت پسند کو ہیرو بنا کر پیش کرتی تھیں، تاہم اب اُن کے پاس کوئی ایسا چہرہ نہیں ہے وہ مجبورا تنظیم کو ہی ہیرو بنانے کی کوشش کر رہی ہیں اور دنیا کو یہ دکھا نے میں لگی ہوئی ہیں کہ کشمیر میں عسکریت پسندی مقامی ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'رواں برس وادی میں ہلاک کیے گئے کل 90 عسکریت پسندوں میں سے 51 لشکر طیبہ کے تھے، 20 حزب المجاہدین کے، آٹھ جیش کے، تین البدر کے جبکہ دیگر غزوات الہند اور اسلامک اسٹیٹ سے منسلک تھے۔ ان میں 12-13 پاکستانی بھی تھے۔'

ٹی آر ایف کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 'پانچ اگست 2019 کے بعد جب وادی میں مواصلاتی نظام بند تھا اسی دوران پاکستان نے ٹی آر ایف اور پی اے ایف ایف نام کی عسکری تنظیموں کو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا اور سنہ 2020 کے فروری کے پہلے ہفتے میں یہ منظر عام پر آئے۔ تب سے آج تک یہ یہاں کئی کارروائیاں انجام دے چکے ہیں'۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ' گذشتہ برس فروری میں سرینگر کے لال چوک پر گرینیڈ حملے کیے گئے جس میں دو سی آر پی ایف اہلکار اور چار عام شہری زخمی ہوئے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا تھا کہ یہ لشکر کا نیا چہرہ ہے اور دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف کارروائی ہے۔

اس کے بعد پھر اپریل میں اس نئے عسکری جماعت نے کپواڑہ میں پانچ بھارتی فوجیوں کو ایک تصادم میں ہلاک کیا۔ گرچہ یہ عسکریت بھی ہلاک کیا گیا تاہم سیکیورٹی فورسز کے لیے یہ بڑا نقصان تھا۔ تب سے مسلسل ان کی جانب سے سیاسی کارکنان، پولیس اہلکار ،اور عام شہریوں کو ہلاک کرنے کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں'۔

مزید پڑھیں:کشمیر معاملے میں پاکستان کے وزیر خارجہ کا اقوام متحدہ کو خط

قابل ذکر ہے کہ پولیس نے حال ہی میں وادی میں سرگرم عسکریت پسندوں کی ایک فہرست بھی جاری کی ہے، جن میں سلیم پرّے، یوسف کنٹرو، عباس شیخ، ریاض شیٹ گند، فاروق نلی، زبیر وانی اور مولوی اشرف خان کے علاوہ ثاقب منظور، عمر کھانڈے اور وکیل شاہ بھی شامل ہیں۔ افسر کے مطابق گرچہ یہ سب ظاہری طور پر علیحدہ علیحدہ کام کرتے ہیں تاہم حقیقت میں ایک ہی ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details