مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے دوسال بعد بھی پرتشدد واقعات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا حالانکہ حکام نے اس بارے میں کئی دعوے کئے تھے۔ اگرچہ کشمیر میں عرصے سے سرگرم عسکری تنظیمیں حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، اور جیش محمد کی کارروائیوں میں کمی آئی لیکن انکی جگہ نئی تنظیمیں متعارف ہوئیں جن کے ذریعے کئی پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ ان تنظیموں میں دی ریزسٹنس فرنٹ یا ٹی آر ایف اور پیپلز انٹی فاسسٹ فرنٹ ( پی اے ایف ایف) قابل ذکر ہیں۔
ان نئی تنظیموں کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کا وادی میں سرگرم دیگر عسکری تنظیموں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ بیشتر نئی عسکریت پسند تنظیمیں اصل میں پرانی تنظیموں کے نئے نام ہیں۔
کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کا کہنا ہے کہ نئے ناموں سے عسکری تنظیموں کو متعارف کرنا اصل میں یہ کوشش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر یہ دکھایا جائے کہ کشمیر میں مقامی عسکریت پسند ہی سرگرم ہیں اور پاکستان کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسند پاکستان کی درپردہ حمایت سے کام کررہے ہیں۔
وجے کمار کے مطابق وادی کی عسکریت پسند تنظیموں کے نام اب اسلامی طرز پر نہیں رکھے جا رہے ہیں۔ ماضی میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) ایسی ہی واحد علیحدگی پسند تنظیم تھی جس کا نام اسلامی طرز پر نہیں تھا۔لبریشن فرنٹ نے 2004 میں عسکری راستہ ترک کرکے سیاسی سرگرمیاں شروع کی تھیں لیکن حکام نے 2018 میں اس پر پابندی عائد کی۔
جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ 'یہ بات سچ ہے کہ پہلے سیکیورٹی فورسز نے ٹی آر ایف اور پی اے ایف ایف کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تاہم جب اُن کی جانب سے بار بار سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور دیگر پبلک پلیٹ فورمز پر حملوں کی ذمہ داری لینے کے دعوے کئے گئے تو پولیس ان کے طریقۂ کار کی تحقیقات کے لیے مجبور ہوئی۔'
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'تصادم آرائی کے دوران ہلاک کیے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت سے ثابت ہوا کہ بیشتر ان میں سے حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ ان کے کام کرنے کا طریقہ تھوڑا مختلف تھا تاہم نظریہ ان کا وہی تھا۔ یہ نہ صرف کشمیر میں چل رہے عسکریت پسندی کو مقامی شکل دینا چاہتے تھے بلکہ یہ اس کی تشہیر بھی چاہتے تھے جس کے سبب یہ اکثر سماجی رابطہ ویب سائٹ پر ویڈیو شائع کرتے رہے'۔