رمضان المبارک میں دور دراز علاقوں سے عوام عالمگیری مسجد میں افطار کے لیے پہونچتی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں عوام کا جم غفیر ہوتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف مسجد ویران ہے بلکہ موذن کو بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔
اس مسجد کی تاریخ میں مورخین کے مابین اختلاف ہے کچھ لوگوں نے کہا کہ اورنگزیب عالمگیر نے مندر توڑوا کر مسجد کی تعمیر کروائی تھی، لیکن کسی بھی مورخ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
البتہ ممتاز اسکالر ڈاکٹر رادھو ناتھ سنگھ نے اس مسجد کی تعمیر کا پس منظر بیان کرتے ہوئے تذکرہ کیا، جن کے مطابق ایک برہمن خاندان گھاٹ کے کنارے رہتا تھا۔
اس وقت کا شہر کوتوال اس خاندان کی ایک لڑکی پر فریفتہ ہوگیااور اسے حاصل کرنے کے لیے مختلف حربہ اپنایا بالآخر برہمن لڑکی نے بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں انصاف کا مطالبہ کرنے دہلی پہونچ گئی اور اپنی تحریری شکایت بادشاہ کے سپرد کیا۔
بادشاہ اورنگزیب نے برہمن لڑکی کو انصاف دلانےکے لیے بنارس کا سفر کیا اور جس دن کوتوال نے لڑکی کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا عین اسی وقت فقیری لباس میں سلطان وقت درویش کے صف میں کھڑا تھا، کوتوال اپنی من کی مراد حاصل کرنے کی خوش میں فقیروں پر پیسہ لٹا رہا تھا، لیکن جب اورنگزیب عالمگیر کے پاس پہونچا تو بادشاہ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
اورنگزیب عالمگیر نے کوتوال کو کیفر کردار تک پہنچایا اور ایک چبوترہ پر نماز ادا کیا اسی چبوترہ کو مسجد بنایا گیا، جس کو آج بھی مسجد عالمگیری یا دھرھرہ مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ مسجد بنارس کے پنچ گنگا گھاٹ پر واقع ہے، جو سیاحوں کے لیے دلچسپ مناظرہ پیش کر رہی ہے۔ مغلیہ دور کے فن تعمیر کا عمدہ مثال بھی ہے یہ مسجد فن تعمیرکی عمدہ مثال ہے۔
گنبد سے دیواروں تک کی گئی عمدہ نقاشی، موٹی دیواریں وسیع و عریض صحن دریائے گنگا سے شاندار تصویر پیش کر رہی ہے۔