ETV Bharat / state

Kerela High Courtکیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ناقابل قبول اور شریعت کی غلط تشریح پر مبنی

author img

By

Published : Nov 3, 2022, 10:42 PM IST

کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ناقابل قبول اور شریعت کی غلط تشریح پر مبنی
کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ناقابل قبول اور شریعت کی غلط تشریح پر مبنی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کیرالہ ہائی کورٹ کے خلع سے متعلق فیصلہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ قانون کی تشریح سے آگے بڑھ کر خود قانون وضع کرنے کے درجہ میں ہے، جو یقیناََ عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے، عدالت کا فریضہ ہے کہ شریعت اپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷ میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی تشریح کرے اور جو معاملہ سامنے آئے اس کو اس پر منطبق کرے، نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرے یا اپنے آپ کو اس میں ردوبدل کا مجاز سمجھے.

لکھنو: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ اسلام میں شوہر وبیوی کے درمیان علیحدگی کے لئے تین طریقے متعین ہیں اور یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہیں،All India Muslim Personal Law Board On Kerela High Court

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ قرآن وحدیث کے مطابق اول: طلاق، جس کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کا بیجا استعمال نہ کرے، دوسرے: خلع، جس میں شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے طلاق واقع ہوتی ہے، اس صورت میں بھی بیوی یک طرفہ طور پر خلع نہیں کر سکتی، یہ بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے۔البتہ اس میں شوہر وبیوی کی آپسی مفاہمت شامل رہتی ہے، تیسری صورت فسخ نکاح کی ہے، جو عدالت کے ذریعہ انجام پاتا ہے، اگربیوی علیحدگی چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینے کو تیار نہ ہو تو اب کورٹ کے ذریعہ فیصلہ ہوتا ہے، اگر کورٹ نے محسوس کیا کہ واقعی عورت مظلوم ہے تو نکاح فسخ کر سکتا ہے اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ عورت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے تو درخواست رد کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ قرآن وحدیث سے زوجین کے درمیان علیحدگی کی یہی تین صورتیں ثابت ہیں لہٰذا خلع میں بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے، ہاں اگر شوہر نے ایک معاہدہ کے تحت بیوی کو حق دیا ہو کہ وہ اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے تو اس صورت میں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ تفویض طلاق ‘‘ کہتے ہیں، کیرالا ہائی کورٹ میں ابھی جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سی ایس ڈائس نے خلع کی جو تشریح کی ہے، اس کے مطابق بیوی یکطرفہ طور پر خلع لے سکتی ہے، یہ نہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے اور نہ معتبر علماء وفقہاء نے اس قسم کی بات کہی ہے،

یہ بھی پڑھیں:AIMPLB On Unifrom Civil Code یکساں سول کوڈ ناقابل قبول اور ملک کے لئے نقصاندہ، مسلم پرسنل لا بورڈ

ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے اپنے حدود واختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اس سلسلے میں فقہاء کی تشریح کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ ججز کی تشریح کا اعتبار ہے، یہ قانون کے ماہرین کی طرف سے مذہب کا ماہر ہونے کا ادعاء ہے، کسی بھی مذہب کو ماننے والے اپنے مذہب کی تشریح کے سلسلے میں جن شخصیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان ہی کی تشریح قابل قبول ہوگی، جیسا کہ ہندوستان کے دستور وقانون کی تشریح کے سلسلہ میں ، کسی مذہبی عالم کی بات سند نہیں ہو سکتی، اسی طرح مذہبی احکام کی تشریح میں مذہب کے شارحین کی رائے کے بر خلاف کسی ماہر قانون کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ کیرالا ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول اور تکلیف دہ ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عنقریب اس فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے گا۔All India Muslim Personal Law Board On Kerela High Court

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.