دراصل اردوحروف کو خوبصورت انداز میں لکھنے کا فن ہے۔ خطاطی کی بحیثیت اسلامی فن، کافی ستائش گئی۔ مذہب اسلام کے ماننے والے دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں اور مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ عربی، فارسی، اردو،، آذیری، ترکی زبانوں میں بھی یہ فن مقبول ہوا۔
خطاطی کے لیے مخصوص قلم بنائے جاتے ہیں۔“برو“ یا“بانس“ یا“بمبو“ کے قلم مشہور ہیں۔ قلم کی نوک، حرفوں کی چوڑائی کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ حروف جتنے چوڑے، قلم کی نوک اتنی چوڑی۔ دوات: دوات، شے اور ہمہ قسم کے رنگ بھی استعمال ہوتے ہیں۔سابق ریاست حیدرآباد دکن فن خطاطی کا ایک اہم مرکز تھا۔ شہر کے مشہور خوشنویسوں میں جناب محمد عبد الغفار، جناب نعیم صابری، جناب غوث محمد خان، جناب سلام خوش نویس، جناب محمد بدر الدین، ابجد حیدرآباد ی، جناب محمد ضمیر الدین نظامی، کے علاوہ دیگر حضرات نے اس فن کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس فن کو فائن آرٹس میں شامل کیا گیا تھا۔اُس دور میں اس فن کی کافی پذیرائی سرکاری سطح پر کی گئی تھی تاہم سقوط حیدرآباد کے بعد آہستہ آہستہ اس فن کے سیکھنے والوں میں کمی دیکھی گئی۔ 1989میں کمپیوٹر کتابت کے چھاجانے کے بعد یہ فن اب صرف شادی کے رقعہ جات تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
حیدرآباد میں ارد و کمپیوٹر کے متعارف ہونے سے پہلے اردو اخبارات کا تصور خوشنویس کے بغیر ممکن نہیں تھالیکن آج اردو کتابت کا تصور اردو اخبارات میں ختم ہوگیا ہے۔ حیدرآباد کے چھتہ بازار میں آج بھی کئی خوشنویس ہیں جو شادی کے رقعوں پر نام خوشنویس کے ذریعہ لکھوانے کے خواہش مندوں کا کام کرتے ہیں تاہم آج بھی حیدرآباد میں فن خطاطی کو زندہ رکھنے کی کوشش ادارہ ادبیات اردو کی جانب سے کی جارہی ہے۔ اسی کے حصہ کے طورپر نوجوان نسل کو ہمارے اسلاف کے اس فن سے واقف کروانے کی سعی کی جارہی ہے۔
ادارہ ادبیات اردو میں فن خطاطی سکھانے والے ہیڈ فیکلٹی و سنٹر انچارج محمد عبدالغفار یہ کام گزشتہ کئی برسوں سے کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ خطاطی سے ذہنی سکون اور آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ادارہ ادبیات اردو، فن خطاطی کا شہر حیدرآباد کا اہم مرکز ہے۔ادارہ ادبیات اردو کا قیام 1931میں ریاست حیدرآباد دکن کے آخری فرمان روا نواب میر عثمان علی خان کے دور میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے عمل میں لایا تھا۔ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے 1938میں اس ادارہ میں خطاطی کا شعبہ قائم کیا تھا۔جب یہ مرکز قائم کیا گیا تھا تو اُس وقت حیدرآباد کا سماجی اور سیاسی منظر نامہ جداگانہ تھا کیونکہ اردو سرکاری زبان تھی اور اُس وقت اردو خطاطی کی سرکاری سطح پر ستائش کی جاتی تھی۔اُس وقت سرکاری ملازمت کے لئے خطاطی کا فن ضروری تھا۔اُس وقت پولیس یا فوج کی ملازمتوں کے لئے بھی کوششیں کرنے والوں کو اردو خطاطی میں ماہر ہونا پڑتا تھا۔ 1972 میں مرکزی حکومت کے ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے یہاں مرکز خوشنویسی قائم کیاگیا جہاں اساتذہ کو تنخواہیں دی جاتی رہی ہیں اور اس مرکز کے قیام سے لے کر اب تک اس مرکز کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے گرانٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
اس مرکز کے اولین اساتذہ کرام میں جناب محمد عبدالغفار،جناب غوث محمد خان کے علاوہ جابر بن عبداللہ،قمر الدین نظامی وغیرہ شامل ہیں۔سنٹر انچارج محمد عبدالغفارنے کہا کہ اس مرکز کا شمار ہندوستان کے قدیم فن خطاطی کے مراکز میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ خود ان سے تقریبا 8500طلبہ نے فن خطاطی سیکھی ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے برعکس آج کے دور میں خطاطی کی پذیرائی اس کی اہمیت کے مطابق نہیں ہورہی ہے اور اس کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے۔غفار صاحب جو 1997سے خدما ت انجام دے رہے ہیں نے متحدہ اے پی کی حکومت سے اردو خطاطی کو اسکولس کے نصاب میں شامل کرنے کے لئے جدوجہد کی تھی۔تلنگانہ کو ریاست کا درجہ ملنے کے بعد جہاں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا وہیں ان کی جدوجہد کامیاب رہی اور خطاطی کو اسکولس کے نصاب میں شامل کیا گیا۔محمد عبدالغفارنے کہاکہ اسکولس کے پری پرائمری، پرائمری کے خطاطی کے نصاب کی تیاری کا کام انہوں نے 2016میں انجام دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیلی گرافی اینڈ گرافک ڈیزائننگ کا دو سالہ ڈپلومہ کورس ہے جس کو مفت سکھایا جاتاہے۔اسی ادارہ سے فارغ ایک طالب علم مکہ معظمہ میں خطاطی کی کا کام کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ زائد از نصاب سرگرمیوں کے طورپر خطاطی کو شامل تو کیا گیا تاہم حکومت کی جانب سے خطاطی کے اساتذہ کی ہنوز تقرری نہیں کی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں ان کی جانب سے کئی مرتبہ یاددہانی کروائی گئی اور نمائندگیاں کی گئیں جو لاحاصل رہیں۔غفار صاحب کا کہنا ہے اگر حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس کورس کی تکمیل کرنے والوں کو بہتر ملازمت مل سکتی ہے۔