ETV Bharat / bharat

Mohammad Rafi Death Anniversary: محمد رفیع ایک فقیر کی آواز سے تحریک لے کر بنے گلوکاری کے جادوگر

author img

By

Published : Jul 31, 2021, 7:32 AM IST

Updated : Jul 31, 2021, 1:55 PM IST

آج کرگلوکاری کی دنیا کے بے تاج بادشاہ پدم شری محمد رفیع کی 41 ویں برسی ہے۔ محمد رفیع نے فلم انڈسٹری میں 30 سال سے زیادہ کام کیا۔ اس دوران انہوں نے ہر قسم کے گانے گائے۔ ان کے گائے ہوئے گانوں کو لوگ آج بھی گنگناتے ہیں۔

محمد رفیع کی 41 ویں برسی آج
محمد رفیع کی 41 ویں برسی آج

آج کلوکاری کے جادوگر محمد رفیع کی برسی ہے۔ انہوں نے 41 سال قبل اسی دن آخری سانس لی۔ رفیع صاحب کے انتقال کو کئی دہائیاں ہوچکی ہیں، لیکن ان کی گائے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ رفیع نے ہر مزاج کے گیت انتہائی خوبصورتی سے گائے۔

انہوں نے 1940 سے 1980 تک مجموعی طور پر 26 ہزار گانے گائے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

محمد رفیع

آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کو گلوکاری کی تحریک ایک فقیر سے ملی تھی پنجاب کے کوٹلہ سلطان سنگھ گاؤں میں 24دسمبر 1924 کو ایک متوسط مسلم خاندان میں پیدا ہوئے محمد رفیع ایک فقیر کے نغموں کو سنا کرتے تھے،جس سے ان کے دل میں موسیقی کے تئیں ایک لگاؤ پیدا ہوگیا۔رفیع کے بڑے بھائی حمید نے محمد رفیع کے دل میں موسیقی کے تئیں رجحان دیکھ لیاتھا اور انہیں اس راہ پر آگے بڑھانے میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔

لاہور میں رفیع موسیقی کی تعلیم استاد عبدالواحد خان سے لینے لگے اور ساتھ ہی انہوں نے غلام علی خان سے کلاسیکی موسیقی بھی سیکھنی شروع کی۔ ایک بار حمید رفیع کو لے کر کے ایل سہگل کےموسیقی پروگرام میں گئے،لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کے ایل سہگل نے گانےسے انکار کردیا۔

حمید نےپروگرام کے کنوینر سے گزارش کی کہ وہ ان کے بھائی کو پروگرام میں گانے کا موقع دیں۔کنوینر کے راضی ہونے پر رفیع نے پہلی بار 13سال کی عمر میں اپنا پہلا نغمہ اسٹیج پر پیش کیا۔شائقین کے درمیان بیٹھے موسیقار شیام سندر کو ان کا نغمہ پسند آیا اور انہوں نے رفیع کو ممبئی آنے کی دعوت دی۔

شیام سندر کی موسیقی کی ہدایت میں رفیع نے اپنا پہلا گانا ’سونيے نی ہیریے نی‘ ،زینت بیگم کے ساتھ ایک پنجابی فلم ’گل بلوچ‘كے لیے گایا۔ سال 1944 میں نوشاد کی موسیقی میں انہوں نے اپنا پہلا ہندی گانا ’ہندوستان کے ہم ہیں‘فلم ’پہلے آپ‘ کے لیے گایا۔


سال 1949 میں نوشاد کی موسیقی کی ہدایت میں فلم دلاری میں گائے گانے سهاني رات ڈھل چکی کے ذریعے ان پر کامیابی کے دروازے کھل گئے۔ دلیپ کمار، دیو آنند، شمي کپور، راجندر کمار، ششی کپور، راجکمارجیسے نامور ہیرو کی آواز کہے جانے والے رفیع نے اپنے طویل کریئر میں تقریباً 700 فلموں کے لیے 26000 سے بھی زیادہ گانے گائے۔


محمد رفیع فلم انڈسٹری میں اپنی خوش مزاجی کےلئے جانے جاتے تھے، لیکن ایک بار ان کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان بن ہو گئی ۔انہوں نے لتا منگیشکر کے ساتھ سینکڑوں گانے گائے تھے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب رفیع نے ان سے بات چیت تک کرنی بند کر دی تھی۔ لتا منگیشکر گانوں پر رایلٹی کی حامی تھیں جبکہ رفیع نے کبھی بھی رایلٹی کا مطالبہ نہیں کیا۔


رفیع صاحب کا خیال تھا کہ ایک بار جب فلم سازوں نے گانے کے پیسے دے دیئے تو پھر رایلٹی کا کوئی مطلب نہیں ۔دونو ں کے درمیان تنازعہ اتنا بڑھا کہ محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے درمیان بات چیت بھی بند ہو گئی اور دونوں نے ایک ساتھ گانا گانے سے انکار کر دیا، تاہم چار سال کے بعد اداکارہ نرگس کی کوشش سے دونوں نے ایک ساتھ ایک پروگرام میں دل پکارے گانا گایا۔


محمد رفیع نے ہندی فلموں کے علاوہ مراٹھی اور تیلگو فلموں کے لئے بھی گانے گائے۔ محمد رفیع کو اپنے کریئر میں چھ بار فلم فیئر ایوارڈ سےاور 1965 میں پدم شري ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔


رفیع صاحب اداکار امیتابھ بچن کے بہت بڑے پرستار تھے۔جبکہ انہیں فلمیں دیکھنے کا شوق نہیں تھا لیکن کبھی کبھی وہ فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے امیتابھ بچن کی فلم دیوار دیکھی تھی۔اس کے بعد ہی وہ امیتابھ کے بہت بڑے پرستار بن گئے۔


سال 1980 میں آئی فلم نصیب میں رفیع صاحب کو امیتابھ کے ساتھ ’’چل چل میرے بھائی‘‘گانا گانے کا موقع ملا،امیتابھ کے ساتھ اس گانے کو گانے کے بعد وہ بہت خوش ہوئے تھے۔امیتابھ کے علاوہ انہیں شمي کپور اور دھرمیندر کی فلمیں بھی بہت پسند آتی تھیں۔انہیں امیتابھ-دھرمیندر کی فلم شعلے بہت بے حد پسند تھی اور انہوں نے اسے تین بار دیکھا تھا۔


30 جولائی 1980 کوفلم ’آس پاس‘کے گانے ’’شام کیوں اداس ہے دوست‘‘ مکمل کرنے کے بعد جب رفیع نے لکشمی کانت پيارےلال سے کہا ’کیا میں جا سکتا ہوں؟‘ جسے سن کر وہ حیران ہوگئے، کیونکہ اس سے پہلے رفیع نے ان سے کبھی اس طرح اجازت نہیں مانگی تھی۔اگلے دن 31 جولائی 1980 کو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

محمد رفیع کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگاکہ انہوں نے جدوجہد کےدور میں اداکاری بھی کی ہے اور امان اللہ خان فوراً بتادیں گے کہ فلم میلہ میں فقیر کے بھیس میں رفیع صاحب تھے۔اسی طرح بیجو باورا کے بھارت بھوشن پرفلمائے گئےبھجن اور دلیپ کمار کے ستار بجانے کے بارے میں تفصیل امان اللہ ہی بتاسکتے ہیں۔جا میں ان کی انگلیاں زخمی ہوگئی تھیں۔ان نغموں کوگاکر محمدرفیع نے فلموں کو چارچاند لگادیئے ۔اور یہ تسلی۔ کرنا پڑا کہ ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔


کابل کے ایک سنیما گھر میں ہندی فلموں سے جسے امان اللہ کوعشق ہوگیا، 31جولائی 1980 کوجب محمد رفیع کے وصال کی خبر ان تک پہنچی تو ان کی اہلیہ نے ایک چاندسے بیٹے کو جنم دیا اورکسی تاخیر کے بغیر امان اللہ خان نے اپنے صاحبزادے کا نام محمد رفیع رکھنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلہ کی ان قبیلہ اور خاندان میں مخالفت بھی ہوئی، لیکن وہ ٹھس سے مس نہں ہوئے ۔آج بھی ممبئی آنے پر وہ شمال مغربی ممبئی کےجوہوقبرستان میں رفیع صاحب کی قبر اور باندرہ میں ون کے نام سے منسوب چوک پر بھی جاتے ہیں۔موقع ملنے پر اہل خانہ سے بھی ملتے ہیں۔


محمد رفیع کاایک فین کلب ممبئی کے پڑوسی شہر الہاس نگر۔میں بنایاگیا ہے۔اور ان کے مداح ڈاکٹر پربھو آہوجہ ہیں جوکہ پیشہ سے ڈاکٹر ہیں اور ماہر قلب ہیں، لیکن فرصت کے اوقات میں وہ اور ان کی اہلیہ آشا آہوجہ محمدرفیع کے نغموں اور پُرکشش آواز۔میں کھوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

محمد رفیع: گلوکاری کے فن کو نئی جہت دینے والا گلوکار


ڈاکٹر آہوجہ کاکہنا ہے کہ مرحوم رفیع صاحب کی آواز کا جادو چار دہائی تک فلمی دنیا پر چھایا رہاور آج بھی تقریباََ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی چھایا ہوا ہے۔انکے نغمے مسحور کردیتے ہیں اور جادو سر چڑھ کر بولتاہے۔ سہگل، مکیش، طلعت محمود، ہیمنت کمار وغیرہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہیں، لیکن محمدرفیع کی آواز میں وہ جادو اور کشش ہے کہ دوسرے کسی گلوکار کی آواز میں نہیں ہے۔صحافی جاوید جمال الدین محمدرفیع کے جلوس جنازہ کو نہیں بھلاپائے ہیں، جس میں ماہ رمضان کے الوداع جمعہ کے روزتیز بارش کے باوجود لاکھوں مداح نے شرکت کی، ان میں لوگوں نے کسی بھید بھاؤ کے شرکت کی تھی۔جاوید اسکول کی چھٹی کے بعد سیدھے باندرہ پہنچے تھے،انہیں سحری میں آل انڈیا ریڈیو کی خبر سے محمد رفیع کھ انتقال کا پتہ چلا تھا۔ ایک دوسرےمداح اورسابق کلکٹر اثرستار نے کہاکہ جنازے میں ایک سادھو تدفین تک موجود رہا جس کا کہنا تھا کہ محمدرفیع نے جس انداز میں فلموں میں بھجن گائے ہیں، انہیں وہ فراموش نہیں کرسکتے ہیں اور کوئی ہندو بھی اتنے اچھے انداز میں نہیں گاسکتا ہے۔اس لئے محمد رفیع آج بھی اپنی آواز کی وجہ سے زندہ ہیں۔
یو این آئی

Last Updated : Jul 31, 2021, 1:55 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.