ETV Bharat / bharat

Bharat Ratna Maulana Abul Kalam Azad: بیسویں صدی کے معروف اردو ادیب مولانا ابوالکلام آزاد

امام الہند کے لقب سے مشہور مولاناابوالکلام آزاد Bharat Ratna Maulana Abul Kalam Azad 11 نومبر 1888 کو مکّہ میں پیدا ہوئے جبکہ ان کا انتقال 22 فروری 1958 کو دہلی میں ہوا۔۔

امام الہند کے لقب سے مشہور مولاناابوالکلام آزاد
امام الہند کے لقب سے مشہور مولاناابوالکلام آزاد
author img

By

Published : Feb 22, 2022, 1:10 PM IST

مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کی پرورش مذہبی خاندان میں ہوئی۔ انہیں بچپن سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا جبکہ قرآن، فقہ، علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ وہ ایک عظیم خطیب، زبردست صحافی، عالی مرتبہ مجتہد، عظیم دانشور، بلند پایہ مفکر، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے۔

آزادی کے بعد مولانا آزاد کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ملک کا پہلا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ India's First Education Minister وہ 15 اگست 1947 کے بعد سے یکم فروری 1958 تک وزیر تعلیم رہے تھے۔ انہوں نے تعلیمی نظام کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے کئی کمیشنز قائم کئے تھی نیز تعلیم کو عام کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ وہ خواتین کی تعلیم کے حامی تھے۔

ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا آزاد نے تعلیم یافتہ بھارت کی بنیاد رکھی، تاہم ان کے انتقال کے بعد انہیں ملک کے سب سے بڑے اعزاز 'بھارت رتن' سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے 15 برس کی عمر میں 'لسان الصدق' جریدہ کی ادارت کی تھی، 20 برس کی عمر میں اخبار 'الہلال' کے ایڈیٹر بنے اور بعد میں انہوں نے 'البلاغ' جاری کیا اور بھارت کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری پیدا کی۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم، مولوی محمد عمر، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ان کی ادبی زندگی کا آغاز 11 سال کی عمر میں ہوا۔

مولانا آزاد پہلے شاعری اور بعد میں نثر کی جانب متوجہ ہوئے جبکہ مولوی عبدالواحد نے ان کا تخلص 'آزاد' رکھا جس کے بعد انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے کافی شہرت حاصل ہوئی۔

مولانا آزاد نے 15 برس کی عمر میں 'لسان الصدق' جریدہ کی ادارت کی، 20 برس کی عمر میں اخبار 'الہلال' کے ایڈیٹر بنے اور بعد میں انہوں نے 'البلاغ' جاری کیا اور بھارت کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری پیدا کی۔

مولانا آزاد سچے محب وطن تھے۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے اور اپنے خطابات اور مضامین کے ذریعہ قومی یکجہتی کو فروغ دیتے تھے۔

مولانا آزاد، دو قومی نظریہ کے مخالف تھے تقسیم ہند کے بعد ہونے والے فسادات سے وہ بہت غمزدہ تھے۔ اس وقت انہوں نے دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے اپنے خطاب میں بھارتی مسلمانوں کو پیغام دیا تھا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 'عزیزوں! ستارے ٹوٹ گئے تو کیا ہوا، سورج تو چمک رہا ہے۔ اس سے کرنیں مانگ لو اور ان اندھیری راہوں میں بچھادو، جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔ آؤ عہد کریں کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔'

مولانا ابولکلام آزاد نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ وہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے کافی قریب تھے۔

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے انجمن اسلامیہ سمیت متعدد مدارس کی بنیاد بھی رکھی اور انگریزی حکومت کے دوران رانچی میں نظر بھی بند رہے۔ مولانا کا آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا جو بڑے ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔

عظیم مجاہد آزادی مولانا آزاد کا جنگ آزادی میں بھی اہم رول تھا اور آزادی کے ساتھ تقسیم ہند کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں بھی انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ اقلیتوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ 'یہ تمہارا ملک ہے اور اسی ملک میں تم رہو گے'۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایسی پرکشش اور جاذبِ نظر ہے کہ کوئی بھی اہلِ ذوق ان کی شخصیت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس شخصیت کے اندر نا جانے کتنے پہلو پوشیدہ ہیں کہ ایک پر نظر ڈالو تو دوسرا دعوت نظارہ دینے لگتا ہے اور کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جو دلچسپی سے خالی ہو۔

مولانا ابولکلام آزاد کی عوامی زندگی میں بڑی کشش ہے اور علمی زندگی میں بھی۔ ان کی تصنیفات میں اس قدر علم کا دریا موجزن ہے کہ اگر کسی نے ان کی کسی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو وہ ساحل پر کھڑے ہوکر تماشائی بنا نہیں رہ سکتا۔

صحافت میں بھی مولانا ابولکلام آزاد کا بہت بلند مقام ہے۔ ان کے ہفتہ واری اخبار 'الہلال' کی خدمات کو زمانہ فراموش نہیں کرسکتا ایسے وقت میں جب صحافت نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے پھر بھی اس کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ آج بھی اردو صحافت کے سفر میں ایک سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ چھ برس کے غور و خوض کے بعد انہوں نے 13 جولائی 1912 کو الہلال کا پہلا شمارہ شائع کیا تھا اور 12 نومبر سنہ 1915 کو دوسرا پرچہ 'البلاغ' کے نام سے جاری کیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کی پرورش مذہبی خاندان میں ہوئی۔ انہیں بچپن سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا جبکہ قرآن، فقہ، علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ وہ ایک عظیم خطیب، زبردست صحافی، عالی مرتبہ مجتہد، عظیم دانشور، بلند پایہ مفکر، فلسفی اور جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے۔

آزادی کے بعد مولانا آزاد کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ملک کا پہلا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ India's First Education Minister وہ 15 اگست 1947 کے بعد سے یکم فروری 1958 تک وزیر تعلیم رہے تھے۔ انہوں نے تعلیمی نظام کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے کئی کمیشنز قائم کئے تھی نیز تعلیم کو عام کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ وہ خواتین کی تعلیم کے حامی تھے۔

ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا آزاد نے تعلیم یافتہ بھارت کی بنیاد رکھی، تاہم ان کے انتقال کے بعد انہیں ملک کے سب سے بڑے اعزاز 'بھارت رتن' سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے 15 برس کی عمر میں 'لسان الصدق' جریدہ کی ادارت کی تھی، 20 برس کی عمر میں اخبار 'الہلال' کے ایڈیٹر بنے اور بعد میں انہوں نے 'البلاغ' جاری کیا اور بھارت کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری پیدا کی۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم، مولوی محمد عمر، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ان کی ادبی زندگی کا آغاز 11 سال کی عمر میں ہوا۔

مولانا آزاد پہلے شاعری اور بعد میں نثر کی جانب متوجہ ہوئے جبکہ مولوی عبدالواحد نے ان کا تخلص 'آزاد' رکھا جس کے بعد انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے کافی شہرت حاصل ہوئی۔

مولانا آزاد نے 15 برس کی عمر میں 'لسان الصدق' جریدہ کی ادارت کی، 20 برس کی عمر میں اخبار 'الہلال' کے ایڈیٹر بنے اور بعد میں انہوں نے 'البلاغ' جاری کیا اور بھارت کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری پیدا کی۔

مولانا آزاد سچے محب وطن تھے۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے اور اپنے خطابات اور مضامین کے ذریعہ قومی یکجہتی کو فروغ دیتے تھے۔

مولانا آزاد، دو قومی نظریہ کے مخالف تھے تقسیم ہند کے بعد ہونے والے فسادات سے وہ بہت غمزدہ تھے۔ اس وقت انہوں نے دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے اپنے خطاب میں بھارتی مسلمانوں کو پیغام دیا تھا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 'عزیزوں! ستارے ٹوٹ گئے تو کیا ہوا، سورج تو چمک رہا ہے۔ اس سے کرنیں مانگ لو اور ان اندھیری راہوں میں بچھادو، جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔ آؤ عہد کریں کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔'

مولانا ابولکلام آزاد نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ وہ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے کافی قریب تھے۔

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے انجمن اسلامیہ سمیت متعدد مدارس کی بنیاد بھی رکھی اور انگریزی حکومت کے دوران رانچی میں نظر بھی بند رہے۔ مولانا کا آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا جو بڑے ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔

عظیم مجاہد آزادی مولانا آزاد کا جنگ آزادی میں بھی اہم رول تھا اور آزادی کے ساتھ تقسیم ہند کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں بھی انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ اقلیتوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ 'یہ تمہارا ملک ہے اور اسی ملک میں تم رہو گے'۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایسی پرکشش اور جاذبِ نظر ہے کہ کوئی بھی اہلِ ذوق ان کی شخصیت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس شخصیت کے اندر نا جانے کتنے پہلو پوشیدہ ہیں کہ ایک پر نظر ڈالو تو دوسرا دعوت نظارہ دینے لگتا ہے اور کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جو دلچسپی سے خالی ہو۔

مولانا ابولکلام آزاد کی عوامی زندگی میں بڑی کشش ہے اور علمی زندگی میں بھی۔ ان کی تصنیفات میں اس قدر علم کا دریا موجزن ہے کہ اگر کسی نے ان کی کسی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو وہ ساحل پر کھڑے ہوکر تماشائی بنا نہیں رہ سکتا۔

صحافت میں بھی مولانا ابولکلام آزاد کا بہت بلند مقام ہے۔ ان کے ہفتہ واری اخبار 'الہلال' کی خدمات کو زمانہ فراموش نہیں کرسکتا ایسے وقت میں جب صحافت نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے پھر بھی اس کی گرد پا کو بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ آج بھی اردو صحافت کے سفر میں ایک سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ چھ برس کے غور و خوض کے بعد انہوں نے 13 جولائی 1912 کو الہلال کا پہلا شمارہ شائع کیا تھا اور 12 نومبر سنہ 1915 کو دوسرا پرچہ 'البلاغ' کے نام سے جاری کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.