ETV Bharat / bharat

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے نئے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری اور بھارت کے تجارتی مفادات

author img

By

Published : Jul 13, 2020, 12:16 PM IST

Appointment
Appointment

عالمی تجارتی تنظیم میں تمام فیصلے اتفاق رائے سے لئے جاتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل خود پس پردہ رہتے ہوئے عالمی تجارتی تنظیم کے اراکین میں کسی فیصلے پر اتفاق رائے یقینی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اشوک مکھرجی بھارتیہ سفارتکار رہے ہیں اور 2013-2015 کے درمیان وہ اقوام متحدہ میں بھارت کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔

عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رابرٹو ازویڈو، جن کا تعلق برازیل سے ہے، نے مئی کے وسط میں عندیہ دیا کہ وہ اگست 2020 تک اپنا عہدہ چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس عہدے پر اُن کی دوسری ٹرم یعنی چار سالہ مدت پوری ہوجانے میں ابھی ایک سال باقی تھا۔ اب اس عالمی ادارے کے نئے ڈائریکٹر جنرل کا انتخاب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے، جب بین الاقوامی حالات بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کے نئے ڈی جی کا انتخاب ایک نادر موقع بھی ہے اور ایک بڑا چیلنج بھی۔

عالمی تجارتی تنظیم میں تمام فیصلے اتفاق رائے سے لئے جاتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل خود پس پردہ رہتے ہوئے عالمی تجارتی تنظیم کے اراکین میں کسی فیصلے پر اتفاق رائے یقینی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل کے کانفرنس روم جہاں اُن کی سربراہی میں متعلقہ اراکین مل کر فیصلے لیتے ہیں، اسے ’’گرین روم‘‘ پکارا جاتا ہے۔ اس ’’گرین روم‘‘ کے غیر رسمی اجلاس میں وفود کے سربراہان، بشمول تنظیم کے ممبران پر مشتمل کارڈی نیٹر گروپس مل بیٹھ کر متنازعہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرتے ہیں۔ اس عمل میں عمومی طور پر چالیس وفود شامل ہوتے ہیں، جو اکثر الجھے ہوئے مسائل کا قابلِ قبول حل نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان غیر رسمی بحث و مباحثوں میں شامل ہونے والے وفود کی سربراہی ٹریڈ منسٹرز کرتے ہیں، جو اس عالمی تنظیم سے متعلق سیاسی امور پر بات چیت کرتے ہیں۔ بعض ممالک کی جانب سے ابھارے جانے والے تکنیکی امور کا حل نکالنے میں اس عالمی تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ’’گرین روم‘‘ میں ہونے والی بات چیت اِس اصول پر ہوتی ہے کہ جب تک کسی حل طلب معاملے پر پوری طرح اتفاق رائے نہ ہوجائے، تب تک اس معاملے سے جڑی کسی بھی بات پر اتفاق رائے کو ادھورا سمجھا جائے گا۔ یعنی کسی بھی مسئلے کے حل کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے ہی واحد راستہ ہے۔ ’’گرین روم‘‘ میں تجارت سے متعلق کسی بھی مسئلے پر بات چیت کے عمل کے نتائج کو عام طور سے اس عالمی تجارتی تنظیم کی منسٹریل کانفرنس اپنی حمایت دیتی ہے۔ جیسا کہ 1996 میں سنگاپور میں منعقدہ عالمی تجارتی تنظیم کی پہلی منسٹریل کانفرنس میں طے پایا گیا تھا کہ سرمایہ کاری اور تجارتی مقابلہ سے متعلق پالیسی کو التوا میں رکھا جائے گا۔ اسی طرح 1996ء سے لیکر 2003ء تک ’’گرین روم‘‘ پراسسیس اور عالمی تجارتی تنظیم کی منسٹریل کانفرنس میں مسلسل غیر رسمی گفت و شنید کی بدولت ہی عالمی تجارتی قوانین میں آسانی پیدا کردی گئی تھی۔ بھارت ہمیشہ ’’گرین روم‘‘ پراسیس کا ایک متحرک رکن رہا ہے۔

عالمی تجارتی تنظیم کی جنرل کونسل نے 8 جون 2020ء سے 8 جولائی 2020ء تک کے ایک ماہ میں نئے ڈائریکٹر جنرل کی نامزدگیاں پر کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ ڈائریکٹر جنرل کے انتخاب کا ایک ایسا طریقہ کار ہے، جو جنوری 2003ء سے نافذ العمل ہے۔ 9جولائی 2020ء تک ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کےلئے آٹھ نامزدگیاں موصول ہوئی ہیں۔ ان نامزدگان میں کینیا، نائجریا اور جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی تین خواتین بھی شامل ہیں۔ مصر، میکسیکو، مالیپ، سعودی عرب اور برطانیہ نے اُمیدواروں کو نامزد کیا ہے۔ اب 15 سے17 جولائی 2020ء کے درمیان عالمی تجارتی تنطیم کی جنرل کونسل میں ہر نامزد اُمید وار کے ساتھ آمنے سامنے کی میٹنگوں کا انعقاد ہوگا۔ اس عمل کے نتیجے میں ہی ان نامزد اُمیدواروں میں سے کسی ایک کو نیا ڈائریکٹر جنرل بنانے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔

خلافِ توقع بھارت نے اس عہدے کے لئے کوئی اُمیدوار نامزد نہیں کیا۔ حالانکہ یہ عالمی تجارتی تنظیم کے سیکرٹریٹ کی سربراہی حاصل کرنے کا ایک نادر موقع ثابت ہوسکتا تھا۔ عالمی تجارتی تنظیم کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے انتخاب کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس عالمی تنظیم کے ممبران موجودہ بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے اس تنظیم سے کس طرح کا کردار نبھانے کی توقع رکھتے ہیں۔ نئے ڈی جی کی تقرری کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم میں بڑے ممالک کے مفادات کیا ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوری دُنیا میں ہونے والی تجارت کا 98 فیصد بین الاقوامی تجارت اس عالمی تنظیم سے جڑے 164 رکن ممالک ہی کرتے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم اپنے رکن ممالک کو اُن کی تجارتی پالیسی سے متعلق دو بنیادی اصولوں کو قائم رکھنے کا پابند بناتی ہے۔ یہ دو اصول تجارت کے لئے انتہائی پسندیدہ ملک کا رتبہ اور نیشنل ٹریٹمنٹ ہیں۔ ان دو اصولوں کے تحت عالمی تجارتی تنظیم کسی بھی رکن ملک کو دوسرے تجارتی پارٹنر ملک کے ساتھ امتیاز برتنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ساتھ ہی تمام ممالک کو یکساں طور پر بازاروں تک رسائی فراہم کرنا اور یکساں سہولیات بہم پہنچانا بھی لازمی ہے۔

بھارت جیسے ترقی پزیر ممالک کے مفاد میں یہ ہے کہ نئے ڈائریکٹر جنرل کا عزم یہ ہونا چاہیے کہ وہ متذکرہ دو اصولوں کے تحت بڑے بازاروں میں ان کے تجارتی مفادات کو تحفظ فراہم کرائیں۔عالمی تجارتی تنظیم کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے انتخاب پر اتفاق رائے کے حوالے سے بڑے ممالک کے ملحوظ نظر دو باتیں ہونگیں۔ ایک یہ کہ اس عہدے پر فائز شخص میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ بازاروں تک رسائی دینے سے متعلق بات چیت میں ایک دہائی سے پیدا شدہ تعطل کو ختم کرسکے۔ اس بات چیت میں زرعی بازاروں تک رسائی کا مسئلہ بھی ایک موضوع ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ فوڈ سیکورٹی اور روزگار کے حوالے سے بھارت کا مفاد جڑا ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم میں تنازعات کو حل کرنے کا نظام مزید موثر بنا سکے۔ مسائل کو حل کرنے سے متعلق موجودہ نظام میں بھی 1995ء سے لیکر اب تک عالمی تجارت سے متعلق پانچ سو تنازعات کا حل نکالا گیا ہے۔ بھارت اس نظام کو استعمال کرنے کے حوالے متحرک رہا ہے۔ بھارت نے مثبت رویے سے امریکا اور یورپی یونین جیسے دو قامت پسند تجارتی مراکز سے فوائد حاصل کئے ہیں۔ تاہم امریکا نے عالمی تجارتی تنظیم میں اپیل سے متعلق ادارے کے ججوں کی تقرری کے عمل پر روک لگاتے ہوئے معمول کی تجارتی سرگرمیوں کو مشکل بنادیا ہے۔ اپیل سے متعلق ادارے میں فیصلے لینے کے لئے تین ججوں کی تقرری ناگزیر ہے۔ لیکن امریکا کے رویے کی وجہ سے تیسرے جج کی تقریری نہیں ہو پارہی ہے۔ اپنے اس رویے کے جواز میں امریکا کا کہنا ہے کہ بعض جج ’ایکٹیوازم‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے فیصلے عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کے مطابق نہیں ہوپاتے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے اُن تجارتی قوانین کو دوبارہ بحال کرنا شروع کردیا ہے، جو عالمی تجارتی تنظیم کے قیام سے پہلے امریکا میں موجود تھے۔ اس کے تحت 1974ء کے امریکی ٹریڈ ایکٹ کے سیکشن 301 کو بحال کیا جارہا ہے۔ اس طرح سے امریکا بھارت سمیت عالمی تجارتی تنظیم کے رکن ممالک کے خلاف تجارتی معاملات میں یکطرفہ اور اپنے ملک کے قوانین کے مطابق کارروائی کرسکتا ہے۔ یورپین یونین نے بھی جنوری 2020ء میں عارضی اپیل آربیٹریشن ایگریمنٹ شروع کیا ہے، تاکہ تب تک تنازعات کو اس کے ذریعے حل کیا جاسکے، جب تک امریکا عالمی تجارتی تنظیم میں اپیل سے متعلق ادارے میں ججوں کی تقرری کے عمل میں رکاوٹ ختم نہ کرے۔ بھارت کے کئی تجارتی ساتھی جن میں یورپین یونین، چین، جنوبی کوریا، برازیل، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سنگا پور شامل ہیں، یوپی یونین کے اس عارضی اپیل آربیٹریشن ایگریمنٹ کے رکن ہیں لیکن بھارت اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ جب تک عالمی تجارتی تنظیم کی اپیل سے متعلق ادارے کا کام کاج بحال نہیں ہوجاتا ہے، مختلف تنازعات کے حوالے سے بھارت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عالمی تجارتی تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپیل سے متعلق ادارے کو بحال کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس لحاظ سے نئے ڈائریکٹر جنرل کی تقرری میں اتفاق رائے کے عمل کے دوران بھارت کی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ نیا ڈی جی اس مسئلے کو حل کرنے کا اہل ہو۔

عالمی تجارتی تنظیم کی رکنیت کے نتیجے میں بھارت نے 1995ء کے بعد بالخصوص فائنانشیل سروسز، ٹیلی کام اور ٹریڈ اینڈ سروسز کے شعبوں میں کئی اقتصادی اصلاحات کئے ہیں۔ ان شعبوں کی وجہ سے ہی بھارت میں سال 2024ء تک پانچ ٹرلین اکانومی بننے کی خواہش اُجاگر ہوگئی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق بھارت کا بین الاقوامی ٹریڈ 2018ء میں اس ملک کے مجموجی جی ڈی پی کا چالیس فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کو عالمی تجارتی تنظیم کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے سلیکشن کے عمل میں ایک متحرک اور عیاں کردار نبھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے بھارت کی یہ صلاحیت بھی ظاہر ہوگی کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم کے فیصلوں میں کس طرح سے اپنی مثبت حصہ داری نبھائے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.