ETV Bharat / state

Employees Protest Banned In Kashmir ملازمین کے احتجاج پر پابندی، سیاسی و سماجی رہنماؤں کا ردعمل

جموں و کشمیر انتظامیہ نے جمعہ کے روز ایک آڈر جاری کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو اپنے مطالبات کے حق میں کسی بھی قسم کے مظاہروں اور احتجاج کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ سرکاری حکم نامے کے مطابق اگر کوئی ملازم ایسے مظاہروں میں ملوث پایا گیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

political-and-social-activists-reaction-on-government-circular-about-barring-employees-protest-in-kashmir
ملازمین کے احتجاج پر پابندی، سیاسی و سماجی رہنماؤں کا ردعمل
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 6, 2023, 4:10 PM IST

Updated : Nov 6, 2023, 5:08 PM IST

ملازمین کے احتجاج پر پابندی، سیاسی و سماجی رہنماؤں کا ردعمل

جموں:کانگریس، نیشنل کانفرنس، اور دیگر سیاسی جماعتوں و سماجی کارکنان نے جموں و کشمیر انتظامیہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی جس میں انتظامیہ نے سرکاری ملازمین کو ہدایت جاری کی کہ وہ اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج نہیں کرسکتے۔

جموں کشمیر کی سیاسی جماعتوں و سماجی رہنماؤں نے انتظامیہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ "اختلافات کی ہر آواز کو کچلنے" کی کوشش ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کی زیر قیادت انتظامیہ نے جمعہ کے روز یوٹی ملازمین کو ان کی مجوزہ ایجیٹیشن کو آگے بڑھانے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی حرکتیں تادیبی کارروائی کو راغب کریں گی۔

اس حکم نامے پر جموں کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر وقار رسول وانی نے کہا کہ حکومت اختلاف رائے کی ہر آواز کو کچلنا چاہتی ہے، جو کہ جمہوریت کے لیے بہت خطرناک عمل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی کے خلاف احتجاج کریں اور کانگریس ملازمین سمیت ہر شہری کے جمہوری اور بنیادی حقوق کا مکمل دفاع کرتی ہے اور اس کی حمایت کرتی ہے اور اس حکم کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔


وہیں این سی کے صوبائی سکریٹری شیخ بشیر احمد نے کہا کہ حکم نامہ واضح کرتا ہے کہ جموں و کشمیر میں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ایک ملازم قواعد کے تحت کام کرتا ہے، لیکن اسے اپنے خلاف کسی بھی ناانصافی کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے این سی لیڈر نے دعویٰ کیا کہ موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ سیاسی کارکن بھی قید کے خوف سے بولنے سے کتراتے ہیں۔


سابق پارلیمنٹ ممبر شیخ عبدالرحمن نے اس حکم نامے کے ردعمل میں کہا کہ حکومت حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اب ملازمین کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کر رہی ہیں جو کہ جمہوری حق کو دبانے کے متعارف ہیں۔

مزید پڑھیں:



سابق آئی اے ایس افسر خالد حسین نے اس معاملے پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون 1973 میں موجود ہیں جس کو سابق وزیر علی شیخ عبداللہ نے عمل میں لایا جب کمیونسٹ خیالات کے بینر تلے ملازمین احتجاج کر رہے تھے، تاہم انہوں نے کہا کہ ملازمین کو نظم ضبط کا خیال رکھنا چاہئے۔

سماجی کاکن و سینیئر صحافی سہیل کاظمی نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ سرکاری کا ایک اچھا قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی نوٹیفیکشن سرکاری نکالتی ہے وہ عوام کے بقاء کے لیے ہوتی ہے اور اگر اس نوٹیفیکشن میں کسی سرکاری ملازم کو اعتراض ہے تو وہ اس حوالے سے اپنے ایچ او ڈیز کے سامنے لائے۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اور سیاسی پارٹیاں کسی بھی مسئلے پر احتجاج کرتے ہے اور ان احتحاجیوں میں سرکاری ملازموں کو حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

ملازمین کے احتجاج پر پابندی، سیاسی و سماجی رہنماؤں کا ردعمل

جموں:کانگریس، نیشنل کانفرنس، اور دیگر سیاسی جماعتوں و سماجی کارکنان نے جموں و کشمیر انتظامیہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی جس میں انتظامیہ نے سرکاری ملازمین کو ہدایت جاری کی کہ وہ اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج نہیں کرسکتے۔

جموں کشمیر کی سیاسی جماعتوں و سماجی رہنماؤں نے انتظامیہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ "اختلافات کی ہر آواز کو کچلنے" کی کوشش ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کی زیر قیادت انتظامیہ نے جمعہ کے روز یوٹی ملازمین کو ان کی مجوزہ ایجیٹیشن کو آگے بڑھانے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی حرکتیں تادیبی کارروائی کو راغب کریں گی۔

اس حکم نامے پر جموں کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر وقار رسول وانی نے کہا کہ حکومت اختلاف رائے کی ہر آواز کو کچلنا چاہتی ہے، جو کہ جمہوریت کے لیے بہت خطرناک عمل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے حقیقی مسائل کو حل کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی کے خلاف احتجاج کریں اور کانگریس ملازمین سمیت ہر شہری کے جمہوری اور بنیادی حقوق کا مکمل دفاع کرتی ہے اور اس کی حمایت کرتی ہے اور اس حکم کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔


وہیں این سی کے صوبائی سکریٹری شیخ بشیر احمد نے کہا کہ حکم نامہ واضح کرتا ہے کہ جموں و کشمیر میں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ایک ملازم قواعد کے تحت کام کرتا ہے، لیکن اسے اپنے خلاف کسی بھی ناانصافی کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے این سی لیڈر نے دعویٰ کیا کہ موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ سیاسی کارکن بھی قید کے خوف سے بولنے سے کتراتے ہیں۔


سابق پارلیمنٹ ممبر شیخ عبدالرحمن نے اس حکم نامے کے ردعمل میں کہا کہ حکومت حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اب ملازمین کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کر رہی ہیں جو کہ جمہوری حق کو دبانے کے متعارف ہیں۔

مزید پڑھیں:



سابق آئی اے ایس افسر خالد حسین نے اس معاملے پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون 1973 میں موجود ہیں جس کو سابق وزیر علی شیخ عبداللہ نے عمل میں لایا جب کمیونسٹ خیالات کے بینر تلے ملازمین احتجاج کر رہے تھے، تاہم انہوں نے کہا کہ ملازمین کو نظم ضبط کا خیال رکھنا چاہئے۔

سماجی کاکن و سینیئر صحافی سہیل کاظمی نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ سرکاری کا ایک اچھا قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی نوٹیفیکشن سرکاری نکالتی ہے وہ عوام کے بقاء کے لیے ہوتی ہے اور اگر اس نوٹیفیکشن میں کسی سرکاری ملازم کو اعتراض ہے تو وہ اس حوالے سے اپنے ایچ او ڈیز کے سامنے لائے۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اور سیاسی پارٹیاں کسی بھی مسئلے پر احتجاج کرتے ہے اور ان احتحاجیوں میں سرکاری ملازموں کو حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

Last Updated : Nov 6, 2023, 5:08 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.