ETV Bharat / state

2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کا منشور جاری

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 24, 2024, 4:47 PM IST

All India Milli Council Manifesto Released: آل انڈیا ملی کونسل نے 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل اپنا منشور جاری کردیا ہے۔ ملی کونسل کی جانب سے چارٹر مطالبات سیاسی پارٹیوں کو دیے گئے ہیں تاکہ پارٹیاں غور وخوض کے بعد اسے اپنے منشور میں شامل کرسکیں۔

Manifesto of All India Milli Council released ahead of 2024 parliamentary elections
Manifesto of All India Milli Council released ahead of 2024 parliamentary elections
2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کا منشور جاری

بنگلورو: 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کا منشور جاری کر دیا گیا ہے۔ رواں سال اپریل یا مئی 2024 میں ملک کے 18ویں عام انتخابات (General Elections) ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کی جانب سے چارٹر مطالبات تیار کرکے سیاسی پارٹیوں کو اس گزارش کے ساتھ دیے گئے کہ سیاسی جماعتیں انہیں اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں۔ ملک میں موجودہ سیاسی و سماجی حالات کے متعلق آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر مولانا نوشاد نے کہا کہ گذشتہ 9 برسوں سے جمہوریت اور ملک کے سیکولر کردار پر حملہ ہورہا ہے اور ہر جہت سے اندیشوں و خطرات کے بادل ملک پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک خاص منصوبے کے نتیجہ میں ملک کی اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں، دیگر محروم طبقات اور سماج کے وہ طبقات جن کو ملک کی مجموعی ترقی میں مناسب حصہ ملنا چاہیے تھا وہ یکسر یاس و محرومی میں ہیں۔ حالات ایسے بنائے گئے ہیں کہ ہم حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے کی بھی جرات نہ کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں:

آل انڈیا ملی کونسل کے زیر اہتمام اسلام جمخانہ میں دستور بچاؤ ملک بناؤ تحریک کا آغاز

انہوں نے کہا بتایا کہ ملک کے اندر جن کو اُن کی آبادی کے مناسب حصہ ملنا چاہیے تھا، اُن پر چہار طرفی حملے ہور ہے ہیں۔ یہ اور اسی قسم کے منظر نامے کے پیش نظر 15-16 جنوری 2024 کو مبئی میں ملی کونسل کی سیاسی امور کمیٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا گیا تھا اور آنے والے عام انتخابات کے تناظر میں ملی کونسل کے ارباب حل و عقد نے ایک مبسوط منشور مطالبات کے مسودے کو اپنی مشترکہ جد وجہد اور آپسی صلاح و مشوروں کے ساتھ حتمی شکل دی تھی۔ سبھی شرکاء اجلاس کی تائید کے ساتھ آج کے اس ریاستی اجلاس میں میڈیا کے سامنے اس منشور مطالبات کو منظر عام پر لایا جارہا ہے، یہ سبھی سیکولر سیاسی جماعتوں / اتحاد کے سربراہان کو بھی پیش کیا گیا ہے، تا کہ مذکورہ منشور مطالبات کو متعلقہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے الیکشن مینی فیسٹو کا حصہ بناسکیں اور ملک کے اندر موجود دوسری سب سے بڑی اکثریت نیز محروم طبقات کے تئیں اُن کا رویہ اتنا مضبوط ہو کہ ان کو بلا تفریق مذہب، ذات اور جنس ملک کی مجموعی ترقی میں شامل کرنے کی یقینی طور پر پہل کی جاسکے۔

واضح رہے کہ مذکورہ منشور میں ترقیاتی امور کے تحت پھر کمیٹی رپورٹ اور جسٹس رنگناتھ کمیشن کی سفارشات کا نفاذ، یکساں مواقع کمیشن کا قیام، تمام سرکاری اداروں میں اقلیتوں کی متناسب نمائندگی اور سرکاری اسکیموں کے نفاذ کے حوالہ سے سنگل ونڈو سٹم اور گرین چینل کی تیاری شامل ہیں۔ اس موقع پر ادارے کے جنرل سیکرٹری سید شاہد نے کہا کہ اوقافی جائدادوں کے تحفظ سے متعلق، وقف قانون 1995 کو مؤثر انداز اور اس کے حقیقی معنوں میں نفاذ کو یقینی بنانے اور اوقافی جائیدادوں پر جو قبضہ یا تفویضات ہیں انھیں خالی کراکر یہ جائیدادیں وقف بورڈ کے حوالے کیے جانے سے حقائق، یقین دہانی، منتخب نمائندوں، جیسے ایم ایل اے، ایم ایل سی کی لوکل باڈی نمبر اور سرکاری عہدیداروں کو پرمیننٹ کرنے کا کام تمام کیا جائے۔ اور وقف بورڈ کے تمام ارکان کو مجموعی طور پر مسلم معاشرہ سے منتخب کیا جائے۔ تحفظ (سکیوریٹی ) سے متعلق مسائل کے سلسلے میں یو اے پے اے میں مختلف مراحل میں کی گئی ترمیمات کی واپس لیا جائے، آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ 1983 کی بحالی کی جائے۔

  • ملی کونسل کے چارٹر مطالبات

فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کے تحت فرقہ وارانہ تشد ال 2011 کو قانونی منظوری کا نفاذ، ہجومی تشدد “Protection of Minorinties Act" کے طرز پر "Prevention of Atrocities Act" ماب لنچنگ کے واقعات کے لیے انتظام کو جوابدہ کیا جائے۔

  • اقلیتی کمیشن کو عدالتی اختیارات کی فراہمی

مختلف شعبہ جات میں نمائندگی کی بابت یہ مطالبات ہیں کہ سبھی مرکزی اور ریاستی تفتیشی و خفیہ ایجنسیوں میں خصوصی تقرری مہم کے تحت اقلیتوں کی مناسب تقرریاں یقینی بنائی جائیں۔ ایک جامع ریزرویشن قانون کی تدوین کی جائے تاکہ تعلیم اور عوامی ملازمتوں میں حاشیے پر پہنچائے گئے لوگوں کو ریزرویشن مل سکے اور ایس سی اور ایس ٹی کے تعلق سے 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں ترمیم کی جائے، تا کہ مذہبی بنیاد پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو تفریق کی گئی ہے، اس کا ازالہ ہو سکے۔
تعلیمی مسائل کی بابت تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کو ریزرویشن، اقلیتی تعلیمی داروں کے قومی کمیشن کو نئی زندگی فراہم کرنے، نوودئے اور ودیالیہ کی طرز پر اقلیتی ارتکاز والے بلاک میں اقلیتوں کے لیے اقامتی اسکولس کا قیام، ایسے سرکاری اور سرکاری امداد پانے والے تعلیمی اداروں کا معیار بحال کیا جائے جو بطور خاص اقلیتی اور دیگر کمزور طبقات کے لیے قائم کیے گئے ہوں، اقلیتی طبقات کے لیے مستقل اسکل یونیورسٹیوں کا قیام وغیرہ امور اس میں شامل ہیں۔
ان کے علاوہ صحت عامہ، ثقافتی امور، قومی اور اقلیتی زبانوں کی ترقی و تحفظ، خواتین کے تعلق سے امور، کسانوں کے مختلف مطالبات کی منظوری، غیر مقیم ہندوستانیوں (NRIS) کے تحفظ کے لیے علاحدہ وزارت کا قیام وغیرہ امور بھی اس منشور میں شامل ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ میڈیا اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ اسے بھی سیاسی جماعتوں کے روبرو پیش کر کے ملی کونسل کے ان مطالبات کو اُن کے مینی فیسٹو میں جگہ دلوانے میں اپنا حساس رول ادا کریں گے۔

2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کا منشور جاری

بنگلورو: 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کا منشور جاری کر دیا گیا ہے۔ رواں سال اپریل یا مئی 2024 میں ملک کے 18ویں عام انتخابات (General Elections) ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کے پیش نظر آل انڈیا ملی کونسل کی جانب سے چارٹر مطالبات تیار کرکے سیاسی پارٹیوں کو اس گزارش کے ساتھ دیے گئے کہ سیاسی جماعتیں انہیں اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں۔ ملک میں موجودہ سیاسی و سماجی حالات کے متعلق آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر مولانا نوشاد نے کہا کہ گذشتہ 9 برسوں سے جمہوریت اور ملک کے سیکولر کردار پر حملہ ہورہا ہے اور ہر جہت سے اندیشوں و خطرات کے بادل ملک پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک خاص منصوبے کے نتیجہ میں ملک کی اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں، دیگر محروم طبقات اور سماج کے وہ طبقات جن کو ملک کی مجموعی ترقی میں مناسب حصہ ملنا چاہیے تھا وہ یکسر یاس و محرومی میں ہیں۔ حالات ایسے بنائے گئے ہیں کہ ہم حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھنے کی بھی جرات نہ کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں:

آل انڈیا ملی کونسل کے زیر اہتمام اسلام جمخانہ میں دستور بچاؤ ملک بناؤ تحریک کا آغاز

انہوں نے کہا بتایا کہ ملک کے اندر جن کو اُن کی آبادی کے مناسب حصہ ملنا چاہیے تھا، اُن پر چہار طرفی حملے ہور ہے ہیں۔ یہ اور اسی قسم کے منظر نامے کے پیش نظر 15-16 جنوری 2024 کو مبئی میں ملی کونسل کی سیاسی امور کمیٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا گیا تھا اور آنے والے عام انتخابات کے تناظر میں ملی کونسل کے ارباب حل و عقد نے ایک مبسوط منشور مطالبات کے مسودے کو اپنی مشترکہ جد وجہد اور آپسی صلاح و مشوروں کے ساتھ حتمی شکل دی تھی۔ سبھی شرکاء اجلاس کی تائید کے ساتھ آج کے اس ریاستی اجلاس میں میڈیا کے سامنے اس منشور مطالبات کو منظر عام پر لایا جارہا ہے، یہ سبھی سیکولر سیاسی جماعتوں / اتحاد کے سربراہان کو بھی پیش کیا گیا ہے، تا کہ مذکورہ منشور مطالبات کو متعلقہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے الیکشن مینی فیسٹو کا حصہ بناسکیں اور ملک کے اندر موجود دوسری سب سے بڑی اکثریت نیز محروم طبقات کے تئیں اُن کا رویہ اتنا مضبوط ہو کہ ان کو بلا تفریق مذہب، ذات اور جنس ملک کی مجموعی ترقی میں شامل کرنے کی یقینی طور پر پہل کی جاسکے۔

واضح رہے کہ مذکورہ منشور میں ترقیاتی امور کے تحت پھر کمیٹی رپورٹ اور جسٹس رنگناتھ کمیشن کی سفارشات کا نفاذ، یکساں مواقع کمیشن کا قیام، تمام سرکاری اداروں میں اقلیتوں کی متناسب نمائندگی اور سرکاری اسکیموں کے نفاذ کے حوالہ سے سنگل ونڈو سٹم اور گرین چینل کی تیاری شامل ہیں۔ اس موقع پر ادارے کے جنرل سیکرٹری سید شاہد نے کہا کہ اوقافی جائدادوں کے تحفظ سے متعلق، وقف قانون 1995 کو مؤثر انداز اور اس کے حقیقی معنوں میں نفاذ کو یقینی بنانے اور اوقافی جائیدادوں پر جو قبضہ یا تفویضات ہیں انھیں خالی کراکر یہ جائیدادیں وقف بورڈ کے حوالے کیے جانے سے حقائق، یقین دہانی، منتخب نمائندوں، جیسے ایم ایل اے، ایم ایل سی کی لوکل باڈی نمبر اور سرکاری عہدیداروں کو پرمیننٹ کرنے کا کام تمام کیا جائے۔ اور وقف بورڈ کے تمام ارکان کو مجموعی طور پر مسلم معاشرہ سے منتخب کیا جائے۔ تحفظ (سکیوریٹی ) سے متعلق مسائل کے سلسلے میں یو اے پے اے میں مختلف مراحل میں کی گئی ترمیمات کی واپس لیا جائے، آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ 1983 کی بحالی کی جائے۔

  • ملی کونسل کے چارٹر مطالبات

فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کے تحت فرقہ وارانہ تشد ال 2011 کو قانونی منظوری کا نفاذ، ہجومی تشدد “Protection of Minorinties Act" کے طرز پر "Prevention of Atrocities Act" ماب لنچنگ کے واقعات کے لیے انتظام کو جوابدہ کیا جائے۔

  • اقلیتی کمیشن کو عدالتی اختیارات کی فراہمی

مختلف شعبہ جات میں نمائندگی کی بابت یہ مطالبات ہیں کہ سبھی مرکزی اور ریاستی تفتیشی و خفیہ ایجنسیوں میں خصوصی تقرری مہم کے تحت اقلیتوں کی مناسب تقرریاں یقینی بنائی جائیں۔ ایک جامع ریزرویشن قانون کی تدوین کی جائے تاکہ تعلیم اور عوامی ملازمتوں میں حاشیے پر پہنچائے گئے لوگوں کو ریزرویشن مل سکے اور ایس سی اور ایس ٹی کے تعلق سے 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں ترمیم کی جائے، تا کہ مذہبی بنیاد پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ جو تفریق کی گئی ہے، اس کا ازالہ ہو سکے۔
تعلیمی مسائل کی بابت تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کو ریزرویشن، اقلیتی تعلیمی داروں کے قومی کمیشن کو نئی زندگی فراہم کرنے، نوودئے اور ودیالیہ کی طرز پر اقلیتی ارتکاز والے بلاک میں اقلیتوں کے لیے اقامتی اسکولس کا قیام، ایسے سرکاری اور سرکاری امداد پانے والے تعلیمی اداروں کا معیار بحال کیا جائے جو بطور خاص اقلیتی اور دیگر کمزور طبقات کے لیے قائم کیے گئے ہوں، اقلیتی طبقات کے لیے مستقل اسکل یونیورسٹیوں کا قیام وغیرہ امور اس میں شامل ہیں۔
ان کے علاوہ صحت عامہ، ثقافتی امور، قومی اور اقلیتی زبانوں کی ترقی و تحفظ، خواتین کے تعلق سے امور، کسانوں کے مختلف مطالبات کی منظوری، غیر مقیم ہندوستانیوں (NRIS) کے تحفظ کے لیے علاحدہ وزارت کا قیام وغیرہ امور بھی اس منشور میں شامل ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ میڈیا اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ اسے بھی سیاسی جماعتوں کے روبرو پیش کر کے ملی کونسل کے ان مطالبات کو اُن کے مینی فیسٹو میں جگہ دلوانے میں اپنا حساس رول ادا کریں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.