لکھنو: شاعر مشرق سر ڈاکٹر علامہ اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی جب کہ وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی تھی علامہ اقبال بیسویں صدی کے ممتاز شاعر مصنف سیاست د اں مفکر اردو عربی فارسی اور سنسکرت ادب پر دسترس رکھنے والے فلسفی شاعر تھے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں وطن سے محبت کا تذکرہ ملتا ہے جس سے اج بھی بھارتی افواج کے بینڈ میں بطور موسیقی بجایا جاتا ہے علامہ اقبال کا شعر سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا بھارت کے ہر عوام و خواص کا کی زبان پر ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ایسوسیٹ پروفیسر ڈاکٹر جانثار عالم سے خاص بات چیت کیا ہے انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال کی شخصیت بہت ہی باکمال شخصیت تھی ان کی شاعری کا کوئی بدل نہیں ہے وہ ایک فلسفی شاعر تھے جنہوں نے دنیا بھر میں منفرد شناخت حاصل کی ہے۔ سر علامہ اقبال سیاسی مفکر بھی تھے ممتاز شاعر نثر نگار اور انگریزی جرمن اردو عربی فارسی سنسکرت ادب پر زبردست گرفت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال نے ہندوستان کے تہذیب و ثقافت کو بھی اپنی شاعری میں شاندار انداز میں پیش کیا ہے جسکی مثال یہ ہے کہ انہوں نے رام کو امام ہند تسلیم کیا ہے اور کہا کہ
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز،
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اس کے علاوہ سنسکرت پر ان کی گرفت رہی ہے جس سے ان کے اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ
پھول کے پتے سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم نازک بے اثر
اس کے ساتھ انہوں نے کئی اشعار اور غزلیں تحریر کی ہیں جو ہندوستان کی ساجھی وراثت گنگا جمنی تہذیب کو پیش کر رہی ہیں لہذا علامہ اقبال پر جو الزام لگتا ہے کہ ملک مخالف تھے سراسر بے بنیاد ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وقت کے ساتھ ان کی فکر میں تبدیلی آتی گئی اور اخیر وقت میں زیادہ تر انہوں نے مذہبی شعر کہے ہیں یہ بھی سچ ہے کہ ٹو نیشن تھیوری دینے میں علامہ اقبال کا بھی اہم کردار رہا ہے لیکن ہندوستان سے محبت اور یہاں کی تہذیب و ثقافت سے انہیں بے پناہ محبت تھی جس سے ان کی تحریر خط و خطابت سے پتہ چلتا ہے علامہ اقبال کو انگریز حکومت نے سر کا خطاب دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کو سر ڈاکٹر محمد اقبال کے نام سے جانا جانے لگا۔