ETV Bharat / opinion

چین: میں ہوں بڑا بھائی

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 13, 2024, 6:00 AM IST

Updated : Mar 13, 2024, 5:33 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat

The big brother syndrome بھارت نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمیشہ رشتوں کو نہ صرف استوار رکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ ان کی مدد کےلئے بھی ہر بار پہل کی گئی لیکن اندرون ملک سیاست کی وجہ سے ان ممالک نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ اڑیل رویہ جاری رکھا ہوا ہے۔ وہیں چین ہر بار پڑوسی ممالک پر ڈھاگ جمانے کی کوشش کرتا رہا ہے اس کے باوجود یہ ممالک بیجنگ کی چاپلوسی میں آگے آگے رہتے ہیں۔ اس پورے تناظر میں دفاعی شعبہ کے ماہر ریٹائرڈ میجر جنرل ہرشا کاکر کا ایک اہم مضمون۔۔۔

عوامی جمہوریہ چین کا حال یہ ہے کہ سبھی پڑوسی ممالک کے ساتھ اسکے تعلقات پر تناؤ ہیں۔ تائیوان، ویتنام، فلپائن، جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا اور یہاں تک کہ برونائی کی چھوٹی سلطنت سے بھی چین کو کسی نہ کسی معاملے پرر کشیدگی ہے۔ان تنازعات کے محرکات الگ الگ ہیں۔ کہیں جنوبی اور مشرقی چین کے سمندروں میں واقع جزائر اور سواحلی علاقوں کا مسئلہ ہے تو کہیں امتیازی اقتصادی علاقوں ( ایکسلیوژو اکنامک زونز) پر کشمیدگی ہے ۔ کئی جگہون پر تنازع یہ ہے کہ وہ علاقہ امریکہ کا حلیف کیوں ہے۔بیجنگ کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے ہیں جو فلپائن اور جاپان کو چین کی مقرر کردہ نائن ڈیش لائن کے اندر اپنے دعووں کو چیلنج کرنے کا اعتماد فراہم کرتے ہیں۔ ویتنام کے ساتھ ایکسلیوژو اکنامک زونز پر تنازع ہے کیونکہ اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ معدنیات سے مالامال علاقہ ہے۔

چین: میں ہوں بڑا بھائی
چین: میں ہوں بڑا بھائی


چین کے لیے، تائیوان کے ساتھ دوبارہ انضمام ہمیشہ سے ایک ترجیح رہی ہے۔ امریکہ کی طرف سے تائیوان کو مسلح کرنا اور اعلیٰ سطح کے امریکی سیاست دانوں کا اس کا دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اپنی ون چائنا پالیسی پر عمل نہیں کر رہا ہے اور اس جزیرے کی آزادی کے دعوے میں حمایت کر رہا ہے۔ بیجنگ نے ہمیشہ جنوبی کوریا کو امریکہ کے علاقائی اتحاد میں ایک کمزور کڑی سمجھا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے امریکہ اور جنوبی کوریا کے فوجی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، سیول کے ساتھ بیجنگ کے اختلافات بڑھتے ہیں۔ جن ممالک کے ساتھ بیجنگ کے اختلافات ہیں وہ بھارت کو اتحادی سمجھتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بھارت ان خطوں سے دور ہے اور انکا وہاں کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو لداخ تعطل کے بعد فروغ ملا کیونکہ اسوقت ہندوستان اور چین کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔ اسکی وجہ وہی پرانی کہاوت ہے کہ میرے دشمن کا دشمن، میرا دوست ہے۔


ویتنام کے ساتھ ہندوستان کے فوجی تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ویتنام کے ساحل میں تیل کی تلاش میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ کواڈ کا رکن ملک ہونے کی حیثیت سے بھارت، جاپان کے ساتھ ساتھ فلپائن اور ویتنام کو براہموس میزائل فراہم کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کی سبانگ بندرگاہ ہندوستانی بحریہ کے بحری جہازوں کو آپریشنل تبدیلی کے لیے دستیاب ہے۔ ہندوستان نے چین کے ساتھ تنازعہ والے ممالک کے ساتھ اپنے سیکورٹی تعاون کو تواتر کے ساتھ بڑھایا ہے۔ اپنے چھوٹے پڑوسیوں کے تئیں ہندوستان اور چین کی پالیسیاں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن جو چیز عالمی اصول بنی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک بڑا، مضبوط اور طاقتور پڑوسی ہمیشہ آس پاس کی چھوٹی قوموں کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے ارادے چاہے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، اس کے چھوٹے پڑوسیوں مالدیپ، نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔


مالدیپ کے چین کے حامی صدر محمد معزو کے حالیہ تبصرے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح ملک کی آبادی پر یہ باور کیا جارہا ہے کہ بھارت کے انکے تئیں مذموم عزائم ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں مالدیپ کو تحفتاً دیئے گئے اپنے فضائی اثاثوں کی دیکھ ریکھ کیلئے غیر مسلح اہلکار روانہ کئے ۔ اس اقدام کے ایک ہفتے بعد مالدیپ کے ایک پورٹل نے صدر کے حوالے سے کہا کہ 10 مئی کے بعد انکے ملک میں کوئی ہندوستانی فوجی نہیں رہے گا یہاں تک کہ شہری لباس میں بھی نہیں۔ پورٹل نے معزو کے حوالے سے لکھا کہ وہ یہ بات انتہائی اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے درمیان مالدیپ کی حکومت نے چین کے ساتھ فوجی تربیت اور غیر مہلک آلات کے لیے 'مفت فوجی امداد' کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ترکی نے مالدیپ کی دفاعی افواج کو تربیت دینا شروع کر دی ہے۔دوسری جانب صدر معزو نے ملک کی روایات کے برعکس ہندوستان کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سرکاری دوروں کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے چین کا رخ کیا۔ معزو نے نئی دہلی پر غنڈہ گردی کا الزام بھی لگایا جس کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا، 'اجارہ داری قائم کرنے والے ملک (انگریزی میں لفظ بلی کا استعمال کیا گیا ) اس وقت 4.5 بلین امریکی ڈالر کی امداد نہیں دیتے جب ہمسایہ ممالک مصیبت میں ہوں۔' دوسری جانب ہندوستانی عوام نے رضاکارانہ طور پر مالدیپ کی سیاحت کا بائیکاٹ کیا ہے، جس کے نتیجے میں جزیرے کے عوام میں ہندوستان مخالف رویہ مین اضافہ ہوا ہے۔

سری لنکا میں حکومتیں یا تو بھارت نواز ہیں یا چین نواز۔ تاریخی طور پر، سنہالی برادری 1980 کی دہائی میں ایل ٹی ٹی ای کے عسکریت پسندوں کو تربیت دینے اور مسلح کرنے کا الزام بھارت پر لگاتی رہی ہے۔ جنگ کے دوران، جب بھارت نے سری لنکا کی فوج کو مسلح کرنے سے انکار کر دیا، یہ کام انکے لئے چین نے کر دکھایا۔ دونوں ممالک میں عدم اعتماد کی فضا برقرار ہے کیونکہ ہندوستان شمالی اور مشرقی سری لنکا میں تاملوں کے مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔ کچھ سری لنکا والوں کا خیال ہے کہ بھارت ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ سنہ 2015 میں جب سری لنکا کے سابق صدر مہندا راجا پاکسے کا تختہ الٹ دیا گیا تو انہوں نے اسکا الزام بھارت کے سر تھوپ دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور ہندوستان دونوں نے انہیں گرانے کے لیے کھلے عام اپنے سفارت خانوں کا استعمال کیا۔ 2018 میں سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے انڈیا کے ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ پر ان کے قتل کی سازش کا الزام لگایا۔ دونوں الزامات تاہم کسی ثبوت کے بغیر عائد کئے گئے۔


گزشتہ سال نومبر میں سری لنکا کے ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان ارجن رانا ٹنگا نے بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ پر الزام عائد کیا کہ وہ سری لنکا کی کرکٹ چلا بھی رہے ہیں اور برباد بھی کررہے ہیں۔سری لنکا میں، باقی جنوبی ایشیا کی طرح، کرکٹ تقریباً ایک مذہب ہے۔ سری لنکا کی حکومت نے بعد میں ان ریمارکس پر معذرت کر لی۔ اسکے برعکس بھات ، سری لنکا کا مددگار رہا ہے۔ کووڈ کے دوران ہندوستان نے 25 ٹن سے زیادہ ادویات فراہم کیں اور ساتھ ہی ویکسین کی 5 لاکھ خوراکیں بھی فراہم کیں۔ اس نے مایہ میڈیکل آکسیجن، تیل خاکی، کھاد اور تیز اینٹیجن کٹس بھی فراہم کیں۔ جب سری لنکا کو 2022 میں معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو ہندوستان نے پیٹرولیم، کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور ایندھن کی خریداری کے لیے قرض کی لائنیں کھول دیں۔ گزشتہ سال نومبر میں سری لنکا کے صدر وکرما سنگھے نے اقتصادی بحران کے دوران ملک کو 4 بلین امریکی ڈالر کی مدد فراہم کرنے پر ہندوستان کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کہ اگر انکا ملک مستحکم ہے تو یہ اسی امداد کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال کے باوجود جب سری لنکا میں آئندہ انتخابات منعقد ہوں گے تو وہ بھارت نواز یا چین نواز پوزیشن پر ہی لڑے جائیں گے۔

نیپال میں، چین کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دانوں کے لیے قوم پرستی کے کارڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بھارت مخالف جذبات کو ہوا دینا ایک عام بات ہے۔ کچھ معزول وزرائے اعظم نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ انکے تنزل میں بھارت کا رول رہا ہے حالانکہ ان کے الزامات کے جواز میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ ہند-نیپال سرحدوں پر کالاپانی اور لیپولیکھ کے مقامات پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، جس نے بھارت مخالف جذبات اور احتجاج کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف چین نے نیپال کو اپنے بی آر آئی (بیلٹ روڈ انیشی ایٹو) میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔ نیپال قرضوں کے جال میں پھنس جانے کے خوف سے چینی منصوبوں کو قبول کرنے میں ہچکچا رہا ہے۔ نیپال میں چین کی ایلچی ہو یانگی نے اس وقت ایک تنازعہ کھڑا کر دیا تھا جب وہ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے ملیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ انکی یہ ملاقاتیں سیاسی تعطل کو توڑنے اور ملک میں ایک چین نواز حکومت قائم کرنے کے ارادے سے کی گئیں تھیں۔ موجودہ چینی سفیر چن سونگ نے بھی نیپال کی سرزمین پر غیر قانونی چینی سرگرمیوں کی تحقیقات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی۔ تاہم جس چیز نے شہ سرخیاں بنائیں وہ بھارتی را کے سربراہ کا کھٹمنڈو کا دورہ تھا۔


اس حقیقت کے باوجود کہ نیپال کی زیادہ تر تجارت بھارت کے ذریعے ہوتی ہے اور دہلی بھی بہت سے منصوبوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے، بھارت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اس ملک میں خفیہ مقاصد کے ساتھ مداخلت کر رہا ہے۔ ہندوستان کے حجم، معیشت، ناکہ بندی عائد کرنے کی صلاحیت اور مدھیسی آبادی کے لیے اس کی حمایت کے نتیجے میں ملک میں ہندوستان مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی فوج میں اگنی ویر پالیسی کے تحت ہونیوالی بھرتیوں کو بھی نیپال حکومت نے قبول نہیں کیا ہے۔ چین ایک شمالی پڑوسی ہے جس نے اور بھی زیادہ ڈھٹائی سے مداخلت کی ہے، لیکن نیپال کے ساتھ اسکے عوامی روابط کم ہیں، اسی لئے ہندوستان کو مقابلتاً عوامی غصے کا زیادہ سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ خفیہ طور پر شیخ حسینہ کی حکومت کے تسلسل کو یقینی بنا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تازہ ترین مہم تمام ہندوستانی اشیاء کے بائیکاٹ کی ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے امریکا کے ساتھ اپنی قربت کے پس منظر میں انتخابی عمل پر تنقید نہیں کی جس انکے نزدیک شیخ حسینہ کی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لانے کیلئے ذمہ دار ہے۔


بنگلہ دیش میں سرحد اور پانی کے مسائل کی وجہ سے بھی بھارت مخالف جذبات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ پیرس میں مقیم بنگلہ دیش کے ایک کارکن نے کہا، 'ضمیر رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک حکومت (ہندوستان) جو کسی دوسرے ملک کے انتخابات میں مداخلت (اور) مدد کرتی ہے اور اپنے شہریوں کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم کرتی ہے، خود غرض اور غیر اخلاقی ہے۔' بھارت کے خلاف یہ الزامات تاہم بغیر کسی ثبوت کے ہیں۔ کم و بیش اسی طرح کا منظر نامہ یورپ میں سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں کا ہے جن کے نظریات روس کے بارے میں ایسے ہی ہیں۔ یہ ممالک زیادہ تر نیٹو کے رکن ہیں اور انہیں روس کی بالادستی سے اپنے سیکیورٹی کے خدشات ہیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد اس عدم اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔


بھارت اور چین دونوں کے لیے اپنے پڑوس میں اعتماد کا فقدان ہے۔ دور کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے پڑوسی بڑے بھائی کے ارادے پر سوال اٹھانا معمول ہے۔ اس وجہ سے، مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ اس کے چھوٹے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا اشارہ دیتے ہیں۔ بڑے بھائی پر شک کرنا معمول کی بات ہے۔ بھارت کو گزشتہ برسوں کے دوران ہمسائیگی میں اپنے ارادوں میں بداعتمادی اور شکوک و شبہات کا سامنا رہا ہے تاہم ہر بار ایسی صورتحال پر قابو پایا جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال مختلف نہیں ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ایسی صورتحال میں بھارت مخالف حکومت کی جگہ ہمیشہ بھارت نواز حکومت آتی ہے اور بعد میں پانسہ پلٹ جاتا ہے۔

Last Updated :Mar 13, 2024, 5:33 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.