ETV Bharat / opinion

ہندوستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اقتصادی راہداری کے دور رس اثرات

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 23, 2024, 2:25 PM IST

Updated : Feb 23, 2024, 3:44 PM IST

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر راویلا بھانو کرشنا کرن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران اس اقتصادی راہداری کے تصور کو عمل میں لانے کی جانب ایک اور بڑا قدم ہے، جس پر گروپ 20 کے ممالک نے ستمبر 2023 میں نئی دہلی کے اجلاس کے دوران اتفاق رائے حاصل کیا تھا۔ یہ راہداری ہندوستان کو ایک اقتصادی طاقت بنانے میں مددگار و معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat

حیدر آباد: ہندوستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے یکم فروری 2024 کو ہندوستان-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری (آئی ایم ای ای سی) پر ایک معاہدے پر دستخط کیے، جو برصغیر پاک و ہند، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان سینکڑوں سالوں سے ایک تاریخی تجارتی راستہ ہے۔ اگرچہ غزہ کا تنازعہ اور بحیرہ احمر کے علاقے میں شورش ایک تشویشناک امر ہے لیکن وزیر اعظم مودی اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ ایک اقتصادی اور اسٹریٹجک گیم چینجر ہے جس کا مقصد شپنگ میں تاخیر کے مسئلے کا تدارک کرکے تجارت کو بڑھانا ہے۔ یہ راہداری ایندھن کے استعمال، اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے سامان کی نقل و حمل کو تیز کرنے اور خطے میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے علاوہ روزگار پیدا کرنے کے وسائل نکالنے کیلئے بھی اہم ہے۔

ستمبر 2023 میں نئی دہلی میں منعقدہ جی ٹونٹی ممالک کے سربراہی اجلاس میں ریاستہائے متحدہ امریکہ، متحدہ عرب امارات، فرانس، جرمنی، بھارت، اٹلی، سعودی عرب اور یورپی یونین نے آئی ایم ای ای سی کے قیام سے متعلق دستاویز مفاہمت پر دستخط کئے۔ یہ ممالک دنیا کی آبادی کا 40 فیصد ہیں اور عالمی معیشت کا تقریباً 50 فیصد حصہ انکے پاس ہے۔ اس دستاویز مفاہمت کا مقصد ہندوستان کو ایک ایسے راستے سے یورپ سے جوڑنا ہے جو متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یونان سے گزرتا ہے اور اسرائیل اور اردن سے بھی جڑتا ہے۔

India-Middle East-Europe Economic Corridor
ہندوستان، مشرق وسطیٰ، یورپ اقتصادی راہداری

فی الحال، ہندوستان اور یورپ کے درمیان زیادہ تر تجارت مصر کے زیر کنٹرول سویز نہر کے ذریعے سمندری راستوں سے ہوتی ہے۔ آئی ایم ای ای سی ایک 4,800 کلومیٹر طویل ملٹی ماڈل ٹرانسپورٹ کوریڈور، ہندوستان کے مغربی ساحل کو سمندر کے ذریعے سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ جوڑتا ہے جس کے بعد ایک ریل راستہ جزیرہ نما عرب کو اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک پہنچاتا ہے۔ حیفہ سے دوبارہ سمندری راستے سے ہی اشیاء یونانی بندرگاہ پیریاس کے ذریعے یورپ لے جائی جائیں گی۔ یوں ہندوستان کی بندرگاہیں موندرا، کانڈلا اور ممبئی کو متحدہ عرب امارات میں فجیرہ، جبل علی اور ابوظہبی، سعودی عرب میں دمام اور راس الخیر بندرگاہوں، اسرائیل میں حیفہ، اور فرانس میں مارسیلی بندرگاہوں، اٹلی میں میسینا اور یونان میں پیریوس بندرگاہوں سے منسلک کیا جائے گا۔

آئی ایم ای ای سی پروجیکٹ ہندوستان کو مغربی ایشیا اور یورپ تک رسائی کے قابل بنائے گا، جو پہلے پاکستان کے راستے ایران اور مغربی ایشیا تک زمینی رسائی کی کمی کی وجہ سے دستیاب نہیں تھا۔ یہ ہندوستان کو مشرق وسطیٰ اور یورپ سے رابطے کے حصول میں اسلام آباد اور تہران کے ارد گرد راستہ تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس منصوبے سے ہندوستان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنا سامان متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن، اسرائیل، یونان، اٹلی، فرانس اور جرمنی تک در آمد و بر آمد کرسکتا ہے۔ ہندوستان سے یورپ تک سامان کی نقل و حمل کا وقت اور لاگت بالترتیب 40 فیصد اور 30فیصد تک کم ہو جائے گا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ انجینئرنگ کی زیادہ تر برآمدات مشرق وسطیٰ اور یورپ کو بھیجی جاتی ہے، اس راہداری کے ذریعے ان برآمدات کو بڑھا سکتا ہے۔

آئی ایم ای ای سی کا منصوبہ اقتصادی اور جغرافیائی رکاوٹوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ شریک ممالک نے مالی وعدے نہیں کیے ہیں اور فنڈز کی تکمیل کی اسکیم کے بارے میں بھی وضاحت نہیں ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے تخمینے کے مطابق پورٹ کنکشن اور ریلوے وغیرہ کی ترقی کے لیے آٹھ سے 20 بلین ڈالر درکار ہوں گے، لیکن پہلے ایم او یو میں اس میں شامل اخراجات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ شراکت داروں کے درمیان مالی بوجھ کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ صرف، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس منصوبے میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان آئی ایم ای ای سی پر معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب تزویراتی اور سیاسی صورتحال قدرے مختلف ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے امرہکہ کے اس منصوبے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے جس کے تحت وہ اسرائیل کو عرب ممالک کے قریب لانا چاہتا تھا۔ درحقیقت، اس پورے منصوبے کا انحصار سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات پر تھا جس کی بنیاد ابراہیم معاہدے کے تحت رکھی گئی تھی جس پر اگست 2020 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اسرائیل کے ساتھ ریل رابطے کے ذریعے جڑ جانا اصل میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ای سی سی معاہدے کے دو اہم شریک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، یمن میں جاری صورتحال کی وجہ سے بھی ایکدوسرے کے خلاف ہیں یا اس پر متضاد نظریہ رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ آئی ایم ای ای سی کا گزر آبنائے ہرمز سے ہوگا جس کا کنٹرول ایران کے پاس ہے، جو اپنے جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی مفادات کو پورا کرنے کے لیے آبنائے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا۔ اس طرح کی تقسیم اس منصوبے کو متاثر کرے گی۔ وزیر اعظم مودی کو سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت سے ان اہم معاملات کو سلجھانے کی پہل کرنی پڑے گی۔

اگرچہ آئی ایم ای ای سی کوچینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے برخلاف دیکھا جارہا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ چین نے پہلے ہی آئی ایم ای ای سی کے راستے پر خاطر خواہ اثر و رسوخ قائم کرلیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نہ صرف بی آر آئی کا فعال رکن ہے بلکہ برکس پلس کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا بھی شریک ہے۔ چین اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2023 میں یہ دونوں ممالک تیل کے علاوہ دوسری تجارت میں سب سے بڑے شریک رہے ہیں۔اس معاملے میں بھارت کے ساتھ یو اے ای کی شراکت داری دوسرے نمبر پر ہے۔ چین پہلے ہی امارات میں اتحاد ریل منصوبے میں سرمایہ کاری کر چکا ہے، جو بڑے صنعتی اڈوں، لاجسٹک ہبس اور متحدہ عرب امارات کی اہم بندرگاہوں کو جوڑ رہا ہے۔

بین الاقوامی پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ آئی ایم ای ای سی کو مستقبل میں عمان، ترکی اور عراق کو ان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے شامل کرنا چاہیے۔ مسقط متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب کا ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔ ہندوستان اور عمان بین الاقوامی شمالی-جنوب ٹرانزٹ کوریڈور کا حصہ ہیں، جو ہندوستان کو ایران اور وسطی ایشیا کے راستے روس سے جوڑے گا۔ ترکی کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ حیفہ اور یونانی بندرگاہ پیروئس کے درمیان کا راستہ ترکی اور یونان کے درمیان ایک متنازعہ آبی راستے سے گزرے گا۔ اس راہداری کا ایک اہم ترین مقام پیروئس ہے جسکا انتظام و انصرام چائنا اوشین شپنگ کارپوریشن کے ذمہ ہے۔ اس بندرگاہ پر اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ سے آنے والا کارگو وصول ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ایردوان نے کہا کہ "ترکی کے بغیر کوئی راہداری نہیں ہو سکتی" اور متبادل کے طور پر ترکی اور عراق کی بندرگاہ کے درمیان سڑک اور ریلوے کے ذریعے رابطے کی پیشکش کی ہے۔

آئی ایم ای ای سی کے ذریعے، ہندوستان بحر ہند کے اس پار بحیرہ عرب میں روابط قائم کرنا چاہتا ہے۔اسکے لئے ہندوستان ایک خشکی کے راستے سے مغربی ایشیا میں داخل ہوکر بحیرۂ روم تک رسائی چاہتا ہے۔ آئی ایم ای ای سی کی تکمیل ہندوستان کیلئے ایک اہم ترجیح ہے کیونکہ یہ دنیا میں اقتصادی اور جغرافیائی صورتحال کو نئے خطوط پر استوار کرے گی جس میں ہندوستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ آئی ایم ای ای سی کی کامیابی بھارت کو یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ ایک بڑا تجارتی شراکت دار بننے کا موقعہ دے گی اور بی آر آئی کا تزویراتی مقابلہ کرنے کی بھی قوت فراہم کرے گی جس نے پورے ایشیا، افریقہ اور یورپ میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم آئی ایم ای ای سی کا نطریہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس تصور کو پیش کرنے والے ممالک کس طرح ایک جامع منصوبہ تشکیل دیتے ہیں تاکہ اس راہداری کو ممکن بنانے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔


یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : Feb 23, 2024, 3:44 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.