ETV Bharat / literature

لکھنؤ میں حیات اللہ انصاری کی علمی خدمات پر سمینار کا اہتمام

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 19, 2024, 2:35 PM IST

Academic services of Hayatullah Ansari: اردو کے عظیم فکشن نگار اور بابائے صحافت و سیاستداں حیات اللہ انصاری کی یاد میں ’حیات کے ہفت رنگ‘ عنوان سے مدرسہ حیات العلوم فرنگی محل میں سمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سینئر صحافی احمد ابراہیم علوی نے کی۔  اس موقعے پر متعدد شخصیات کا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر منصور حسن خاں کی نعت خوانی سے ہوا۔

Organizing a seminar on the Contribution in Education of Hayatullah Ansari
Organizing a seminar on the Contribution in Education of Hayatullah Ansari

لکھنؤ: اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں حیات اللہ انصاری کی علمی خدمات پر سیمینار کا اہتمام عمل میں لایا گیا۔ اس موقع پر سینئر صحافی قطب اللہ نے حیات اللہ انصاری کی فلم سازی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ فلموں کی باریکیوں پر حیات اللہ صاحب کی گہری نظر تھی۔ ان کی فلم نیچانگر کو پہلا کین انٹرنیشنل ایوارڈ ملا۔ ان کے مشہور ناول لہو کے پھول پر سیریل بنا۔ انھوں نے ایک فلم سونار بانگلا بنائی تھی جو ریلیز نہیں ہوسکی۔
یہ بھی پڑھیں:

Hayatullah Ansari حیات اللہ انصاری کی حیات و خدمات پر سمینار


وضاحت حسین رضوی سابق ایڈیٹر نیا دور نے کہا کہ حیات اللہ انصاری بڑے ادیب اور بڑے صحافی تھے۔ ادب و صحافت میں ان کو جو بلند مقام تھا وہ انھیں نہیں ملا، انھیں نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان کو نہ صرف باتوں میں یاد رکھیں بلکہ تحریروں، رسالوں اور کتابوں میں بھی ان کو یاد رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ حیات اللہ انصاری فکشن نگار پہلے تھے، بعد میں صحافت میں آئے۔ انھوں نے صحافیوں کی ایک باصلاحیت ٹیم تیار کی تھی۔ انھوں نے صحافت میں منفرد رنگ اختیار کیا۔

عبید اللہ ناصر نے حیات اللہ انصاری کی سیاسی زندگی پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ حیات صاحب سب سے پہلے مجاہد آزادی تھے۔ ان کے دور میں متعدد نظریات تھے، انھوں نے متحدہ ہندوستانی قومیت کے نظریہ کو اپنایا اور تاحیات اس پر کاربند رہے۔ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر چلے۔ کانگریس سے وابستہ تھے لیکن جب کانگریس اردوکُشی پر آمادہ ہوئی تو انھوں نے کانگریس کی کھل کر مخالفت کی۔ وہ ہر طرح کی کٹرپسندی کے خلاف تھے۔ سدرت اللہ انصاری نے حیات اللہ انصاری کے نظریہ& تعلیم پر روشنی ڈالی اور ’دس دن میں اردو، دس دن میں ہندی‘ جیسی کتابیں انھوں نے کس طرح لکھیں اس کے پس منظر پر دلچسپ گفتگو کی۔

صدر جلسہ سینئر صحافی احمد ابراہیم علوی نے کہا کہ حیات اللہ انصاری اپنے رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے تھے۔ اگر کوئی رشتہ دار گھر آجاتا تھا تو اس کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے تھے۔ وہ ہر کسی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر (مانو) ڈاکٹر عشرت ناہید نے حیات اللہ انصاری کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔


بیگم شہناز سدرت صدر بزم خواتین و آل انڈیا تعلیم گھر نے شکریہ ادا کیا۔ اور نوجوانوں سے اپنی زندگی کے لائحۂ عمل کو ترتیب دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت بہت قیمتی ہے اسے ضائع نہ کریں، انھوں نے کہا کہ CAA کو ہوّا مت بنائیں۔ اس کی مخالفت میں وقت اور انرجی ضائع نہ کریں بلکہ جن لوگوں کے کاغذات پورے نہیں ہیں انہیں درست کرادیں۔ یہی سب سے بڑی خدمت ہے۔

لکھنؤ: اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں حیات اللہ انصاری کی علمی خدمات پر سیمینار کا اہتمام عمل میں لایا گیا۔ اس موقع پر سینئر صحافی قطب اللہ نے حیات اللہ انصاری کی فلم سازی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ فلموں کی باریکیوں پر حیات اللہ صاحب کی گہری نظر تھی۔ ان کی فلم نیچانگر کو پہلا کین انٹرنیشنل ایوارڈ ملا۔ ان کے مشہور ناول لہو کے پھول پر سیریل بنا۔ انھوں نے ایک فلم سونار بانگلا بنائی تھی جو ریلیز نہیں ہوسکی۔
یہ بھی پڑھیں:

Hayatullah Ansari حیات اللہ انصاری کی حیات و خدمات پر سمینار


وضاحت حسین رضوی سابق ایڈیٹر نیا دور نے کہا کہ حیات اللہ انصاری بڑے ادیب اور بڑے صحافی تھے۔ ادب و صحافت میں ان کو جو بلند مقام تھا وہ انھیں نہیں ملا، انھیں نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان کو نہ صرف باتوں میں یاد رکھیں بلکہ تحریروں، رسالوں اور کتابوں میں بھی ان کو یاد رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ حیات اللہ انصاری فکشن نگار پہلے تھے، بعد میں صحافت میں آئے۔ انھوں نے صحافیوں کی ایک باصلاحیت ٹیم تیار کی تھی۔ انھوں نے صحافت میں منفرد رنگ اختیار کیا۔

عبید اللہ ناصر نے حیات اللہ انصاری کی سیاسی زندگی پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ حیات صاحب سب سے پہلے مجاہد آزادی تھے۔ ان کے دور میں متعدد نظریات تھے، انھوں نے متحدہ ہندوستانی قومیت کے نظریہ کو اپنایا اور تاحیات اس پر کاربند رہے۔ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر چلے۔ کانگریس سے وابستہ تھے لیکن جب کانگریس اردوکُشی پر آمادہ ہوئی تو انھوں نے کانگریس کی کھل کر مخالفت کی۔ وہ ہر طرح کی کٹرپسندی کے خلاف تھے۔ سدرت اللہ انصاری نے حیات اللہ انصاری کے نظریہ& تعلیم پر روشنی ڈالی اور ’دس دن میں اردو، دس دن میں ہندی‘ جیسی کتابیں انھوں نے کس طرح لکھیں اس کے پس منظر پر دلچسپ گفتگو کی۔

صدر جلسہ سینئر صحافی احمد ابراہیم علوی نے کہا کہ حیات اللہ انصاری اپنے رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے تھے۔ اگر کوئی رشتہ دار گھر آجاتا تھا تو اس کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے تھے۔ وہ ہر کسی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر (مانو) ڈاکٹر عشرت ناہید نے حیات اللہ انصاری کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔


بیگم شہناز سدرت صدر بزم خواتین و آل انڈیا تعلیم گھر نے شکریہ ادا کیا۔ اور نوجوانوں سے اپنی زندگی کے لائحۂ عمل کو ترتیب دینے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت بہت قیمتی ہے اسے ضائع نہ کریں، انھوں نے کہا کہ CAA کو ہوّا مت بنائیں۔ اس کی مخالفت میں وقت اور انرجی ضائع نہ کریں بلکہ جن لوگوں کے کاغذات پورے نہیں ہیں انہیں درست کرادیں۔ یہی سب سے بڑی خدمت ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.