ETV Bharat / literature

گیا: زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہرمذہب میں بولی جاتی ہے: ڈاکٹر شہزاد انجم

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 20, 2024, 4:19 PM IST

Language has No Religion: سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی شہزاد انجم نے کہا ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن فی الحال اردو کو مسلمانوں سے جوڑکر تعصب پرستی کا نمونہ پیش کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غیر مسلم شاعروں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ غیر مسلم شاعروں نے بھی خود کو کسی طبقہ، برادری یا علاقہ سے منسوب نہیں کیا بلکہ انہوں نے اردو کی خدمت کی ہے۔ یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ اردو کے شاعروں خواہ ان کا تعلق کسی برادری طبقہ اور علاقہ سے ہو، سبھی نے ملک میں آپسی بھائی چارہ، گنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ وراثت کی پیروی کی ہے۔ آج کے اس تعصب پرست ذہنیت اور ناخوشگوار ماحول میں بھی ادب اور شاعری کے ذریعہ امن کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔

Language has no religion, it is spoken in every religion: Dr. Shahzad Anjum
Language has no religion, it is spoken in every religion: Dr. Shahzad Anjum
گیا: زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہرمذہب میں بولی جاتی ہے: ڈاکٹر شہزاد انجم

گیا: زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہر مذہب میں بولی جاتی ہے۔ سینکڑوں ایسے غیر مسلم شعراء گزرے ہیں، جنہوں نے اردو زبان و ادب میں وہ کام کیا ہے جو کام آج بھی زندہ ہے۔ دراصل اس پر اکثر باتیں ہوتی ہیں کہ اردو کے فروغ میں ہندو شعرا، ادبا اور مصنفین کی بے پناہ خدمات ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے۔ کیونکہ اردو کسی ایک خاص فرقہ کی زبان نہیں ہے۔ لیکن آج کے موجودہ تناظر میں اردو کے ساتھ تعصب پرستی کا معاملہ بھی در پیش ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے اردو کے غیر مسلم شعرا کی خدمات اور اردو کی موجودہ صورتحال پر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی شعبۂ اردو کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر شہزاد انجم سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

'زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا'


ڈاکٹر شہزاد انجم نے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ اردو زبان کی توانائی یہ ہے کہ یہ ہر جگہ پورے اعتماد کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، اب چاہے حب الوطنی ہو، شاعری ہو یا بہادری ہو ہر محاذ پر کام آتی ہے، انہوں نے کئی غیر مسلم شعراء کے اشعار بھی پڑھ کے سنائے اور کچھ ان کی باتیں بھی بتائیں، انہوں نے کہا کہ بغیر اردو شعرا، ادبا اور افسانہ نگار کے اردو کے فروغ کا ذکر مکمل نہیں ہے۔

چند برسوں میں ہوئی فضا خراب
ڈاکٹر شہزاد انجم نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ادھر چند برسوں میں یہ محسوس کیا گیا کہ فضا میں ایک عجیب سی کثافت ہے، بیزاری کا عالم، ایک لکیر، ایک تفریق ہے، ناخوشگوار ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ تاہم اُردو سے وابستہ افراد اس فکر میں ہیں کہ اس کو کس طرح سے ختم کیا جائے۔ اردو زبان کو خاص طور سے جو صرف مسلمانوں کی زبان بنادی گئی ہے، بلکہ کہا جانے لگا ہے کہ اردو خاص مذہب کی زبان ہے۔ جب کہ ہزاروں ادیب اور شعراء ہمارے وہ لوگ ہیں جو صرف ہندو ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ سکھ اور عیسائی بھی ہیں، ان کی بہت ساری کتابیں ہیں، ہم ان کو پڑھیں گے تو سمجھیں گے یہ ہندوستانی زبان ہے، اُردو شاعر افسانہ نگار بہت سارے لوگ ملیں گے جن کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ ان کی مقبولیت خدمات کی بناء پر اتنی ہیں کہ آپ اگر کسی مضمون پر ذکر کریں تو وہاں پر ان کی نمائندگی کے بغیر مضمون مکمل نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر شہزاد انجم نے مزید کہا کہ اسی لیے زبان کو مذہب میں بانٹنا مناسب نہیں ہے، زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمارا تو ماننا ہے کہ زبان کو مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مذہب کو زبان کی ضرورت ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری بات کو لوگ سمجھیں، یعنی زبان کو کسی بھی مذہب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مذہب کے لیے زبان ضروری ہے۔ انہوں نے دوران گفتگو کہا کہ بہرحال ہماری کوشش یہ ہے کہ ہندی اردو کی تحریروں، مقالوں اور پروگراموں سے ملک کی فضا خوشگوار، سازگار ہو اور ہندو و مسلم میں ایک اخوت اور محبت پیدا ہو اور یہ محبت کا سلسلہ دراز ہو۔

پاکستان کی وجہ سے تعصب بڑھا
شہزاد انجم نے کہا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اردو کے ساتھ تعصب کا معاملہ تقسیم ملک سے ہوا ہے، اردو زبان جو سب سے زیادہ ہندوستان میں بولی جاتی ہے، اردو زبان کی پیدائش یہیں ہوئی ہے، اردو زبان کے سب سے زیادہ شعراء اور ادیب یہی سے ہیں، ارد زبان کی سب سے زیادہ عمر یہی کھپائی گئی لیکن اس کے باوجود اس کو ہمارے پڑوسی ملک نے جب سے ایک طرح سے کہیے کہ اپنی زبان بنا لیا۔ تبھی سے یعنی کہ آزادی کے بعد سے تعصب کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ پاکستان بھی اس کا ذمہ دار ہے۔

کیونکہ اس کی قومی زبان بننے کے بعد سیاسی اور تعصب پرست ذہنیت والوں کو موقع ملا اور ایک فضا بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے لیکن صاحب میں بات ایک کہوں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ اردو بہت شیریں زبان ہے۔ اس طرح کی باتیں ہوتی رہیں گی۔ فضاء بنے گی لیکن ہم میں سے چند ایسے ہونے چاہیے کہ مثبت سوچے اور ملک کی فضاء بہتر کریں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اُردو زبان اسی تاب کے ساتھ زندہ رہے گی، اس کی شاعری میں بہت جان ہے اور اس کو اپنانے والا کوئی ایک فرقہ اور علاقہ کا نہیں ہے۔

عام بول چال کی ہے زبان
شہزاد انجم نے دوران گفتگو کہا کہ اردو زبان کا مستقبل تابناک ہے۔ اتنی تعصب پرستی کے باوجود اردو عام فہم ہے۔ ہر کسی کی زبان پر اردو ہے۔ خواہ وہ قلم کار ہوں، مصنف ہوں، ادیب ہوں، فلمی دنیا ہو یا کوئی بھی شعبہ ہو، ہر فرد اردو کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اردو کے بغیر لفظ کے کوئی دو قدم چل نہیں سکتا ہے۔ اردو گفتگو کی زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی دونوں سگی بہنوں کی طرح ہیں۔ ہندی کے الفاظ اردو میں آئے ہیں بلکہ اردو میں 50 فیصد الفاظ ہندی سے ہی آئے ہیں۔ آخر میں یہی پیغام ہے کہ اچھی فضا بنانے کے لیے ہم لوگوں کو کوشش کرتے رہنی چاہیے۔

گیا: زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہرمذہب میں بولی جاتی ہے: ڈاکٹر شہزاد انجم

گیا: زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہر مذہب میں بولی جاتی ہے۔ سینکڑوں ایسے غیر مسلم شعراء گزرے ہیں، جنہوں نے اردو زبان و ادب میں وہ کام کیا ہے جو کام آج بھی زندہ ہے۔ دراصل اس پر اکثر باتیں ہوتی ہیں کہ اردو کے فروغ میں ہندو شعرا، ادبا اور مصنفین کی بے پناہ خدمات ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے۔ کیونکہ اردو کسی ایک خاص فرقہ کی زبان نہیں ہے۔ لیکن آج کے موجودہ تناظر میں اردو کے ساتھ تعصب پرستی کا معاملہ بھی در پیش ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے اردو کے غیر مسلم شعرا کی خدمات اور اردو کی موجودہ صورتحال پر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی شعبۂ اردو کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر شہزاد انجم سے خصوصی گفتگو کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

'زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا'


ڈاکٹر شہزاد انجم نے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ اردو زبان کی توانائی یہ ہے کہ یہ ہر جگہ پورے اعتماد کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، اب چاہے حب الوطنی ہو، شاعری ہو یا بہادری ہو ہر محاذ پر کام آتی ہے، انہوں نے کئی غیر مسلم شعراء کے اشعار بھی پڑھ کے سنائے اور کچھ ان کی باتیں بھی بتائیں، انہوں نے کہا کہ بغیر اردو شعرا، ادبا اور افسانہ نگار کے اردو کے فروغ کا ذکر مکمل نہیں ہے۔

چند برسوں میں ہوئی فضا خراب
ڈاکٹر شہزاد انجم نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ادھر چند برسوں میں یہ محسوس کیا گیا کہ فضا میں ایک عجیب سی کثافت ہے، بیزاری کا عالم، ایک لکیر، ایک تفریق ہے، ناخوشگوار ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ تاہم اُردو سے وابستہ افراد اس فکر میں ہیں کہ اس کو کس طرح سے ختم کیا جائے۔ اردو زبان کو خاص طور سے جو صرف مسلمانوں کی زبان بنادی گئی ہے، بلکہ کہا جانے لگا ہے کہ اردو خاص مذہب کی زبان ہے۔ جب کہ ہزاروں ادیب اور شعراء ہمارے وہ لوگ ہیں جو صرف ہندو ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ سکھ اور عیسائی بھی ہیں، ان کی بہت ساری کتابیں ہیں، ہم ان کو پڑھیں گے تو سمجھیں گے یہ ہندوستانی زبان ہے، اُردو شاعر افسانہ نگار بہت سارے لوگ ملیں گے جن کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ ان کی مقبولیت خدمات کی بناء پر اتنی ہیں کہ آپ اگر کسی مضمون پر ذکر کریں تو وہاں پر ان کی نمائندگی کے بغیر مضمون مکمل نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر شہزاد انجم نے مزید کہا کہ اسی لیے زبان کو مذہب میں بانٹنا مناسب نہیں ہے، زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمارا تو ماننا ہے کہ زبان کو مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مذہب کو زبان کی ضرورت ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری بات کو لوگ سمجھیں، یعنی زبان کو کسی بھی مذہب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مذہب کے لیے زبان ضروری ہے۔ انہوں نے دوران گفتگو کہا کہ بہرحال ہماری کوشش یہ ہے کہ ہندی اردو کی تحریروں، مقالوں اور پروگراموں سے ملک کی فضا خوشگوار، سازگار ہو اور ہندو و مسلم میں ایک اخوت اور محبت پیدا ہو اور یہ محبت کا سلسلہ دراز ہو۔

پاکستان کی وجہ سے تعصب بڑھا
شہزاد انجم نے کہا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اردو کے ساتھ تعصب کا معاملہ تقسیم ملک سے ہوا ہے، اردو زبان جو سب سے زیادہ ہندوستان میں بولی جاتی ہے، اردو زبان کی پیدائش یہیں ہوئی ہے، اردو زبان کے سب سے زیادہ شعراء اور ادیب یہی سے ہیں، ارد زبان کی سب سے زیادہ عمر یہی کھپائی گئی لیکن اس کے باوجود اس کو ہمارے پڑوسی ملک نے جب سے ایک طرح سے کہیے کہ اپنی زبان بنا لیا۔ تبھی سے یعنی کہ آزادی کے بعد سے تعصب کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ پاکستان بھی اس کا ذمہ دار ہے۔

کیونکہ اس کی قومی زبان بننے کے بعد سیاسی اور تعصب پرست ذہنیت والوں کو موقع ملا اور ایک فضا بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے لیکن صاحب میں بات ایک کہوں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ اردو بہت شیریں زبان ہے۔ اس طرح کی باتیں ہوتی رہیں گی۔ فضاء بنے گی لیکن ہم میں سے چند ایسے ہونے چاہیے کہ مثبت سوچے اور ملک کی فضاء بہتر کریں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اُردو زبان اسی تاب کے ساتھ زندہ رہے گی، اس کی شاعری میں بہت جان ہے اور اس کو اپنانے والا کوئی ایک فرقہ اور علاقہ کا نہیں ہے۔

عام بول چال کی ہے زبان
شہزاد انجم نے دوران گفتگو کہا کہ اردو زبان کا مستقبل تابناک ہے۔ اتنی تعصب پرستی کے باوجود اردو عام فہم ہے۔ ہر کسی کی زبان پر اردو ہے۔ خواہ وہ قلم کار ہوں، مصنف ہوں، ادیب ہوں، فلمی دنیا ہو یا کوئی بھی شعبہ ہو، ہر فرد اردو کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اردو کے بغیر لفظ کے کوئی دو قدم چل نہیں سکتا ہے۔ اردو گفتگو کی زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی دونوں سگی بہنوں کی طرح ہیں۔ ہندی کے الفاظ اردو میں آئے ہیں بلکہ اردو میں 50 فیصد الفاظ ہندی سے ہی آئے ہیں۔ آخر میں یہی پیغام ہے کہ اچھی فضا بنانے کے لیے ہم لوگوں کو کوشش کرتے رہنی چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.