Covid Third Wave: ماہرین کی نظر میں کووڈ کی تیسری لہر بھارت کیلئے کتنی خطرناک

author img

By

Published : Nov 24, 2021, 7:32 PM IST

کووڈ کی تیسری بھارت کے لیے کتنی خطرناک، ماہرین کی رائے جانیں

ماہرین کے مطابق دسمبر ماہ کے آخری عشرہ سے فروری ماہ کے درمیان کووڈ معاملات (Covid Cases) میں اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کی شدت دوسری لہر( Second Wave) کے موازنے میں کافی کم ہوگی۔

کیا بھارت ایک بار پھر کورونا بحران (Corona Crisis) کی ایک خطرناک شکل سے دوچار ہونے والا ہے؟ وہ بھی تب جب دیوالی کے تین ہفتے بعد معاملات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، لیکن اس سوال کا جواب ممکنہ طور پر ہاں ہیں۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملے میں کمی کی وجہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کا پہلے ہی دوسری لہر کے دوران کورونا وائرس کے انفیکشن میں مبتلا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں تیزی سے لوگوں کا کورونا ویکسینیشن مہم( vaccination campaign) میں حصہ لینا بھی ہے۔

ماہرین نے کووڈ کی تیسری لہر(Third Wave) سے احتیاط برتنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دنیا میں ہر چیز کے امکانات ہوتے ہیں، ایسے ہی کورونا وائرس کے نئے اسٹرین کے آنے کے بھی امکان ہیں اور فی الحال ملک کے بڑے حصے میں موسم سرما کی آمد ہوچکی ہے، لیکن دوسری لہر کے مقابلے تیسری لہر میں ویسے تباہ کن اثرات پیدا ہونے کے امکانات کم ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ معاملات میں اضافہ کا خدشہ ہے، شاید دسمبر سے فروری کے درمیان اس کا اثر دیکھنے کو ملے گا، لیکن اس کا اثر دوسری لہر کے مقابلے میں کم ہوگا، جب بھارت نے ہزاروں لوگ کو مرتے اور لاکھوں کو اسپتال کی قطاروں میں کھڑا ہوتے دیکھا تھا۔

سونیپت کے اشوک یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف فزکس اینڈ بائیولوجی کے پروفیسر اور ماہر گوتم مینن نے بتایا کہ تیسری لہر پورے ملک میں مربوط طریقے سے نہیں پھیلے گی۔

کئی وبائی امراض کے ماہرین نے تہواروں کے موسم اکتوبر اور نومبر کے دوران کورونا وائرس کی تیسری لہر کے شباب پر ہونے کی پیشن گوئی کی تھی۔ درگا پوجا اور دیوالی کے بعد کورونا کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ اس دوران کسی خطرناک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

منگل کے روز بھارت میں کورونا کے نئے 7 ہزار 579 معاملات درج کیے گئے، جو کہ 543 دنوں میں سب سے کم ہیں۔ ان نئے تعداد کے سامنے آنے کے بعد کووڈ 19 کی کل تعداد 3 کروڑ 45 ہزار 26 ہزار 480 ہوگئی ہے۔ وہیں مرکزی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 536 دنوں میں فعال کیسز سب سے کم تھے۔مسلسل 46 دنوں تک روزانہ کورونا کے 20 ہزار سے کم نئے معاملات درج کیے گئے اور لگاتار 149 روز یومیہ 50 ہزار سے کم نئے معاملات رپورٹ ہوئے ہیں۔

مینن نے بتایا کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کا ایک بڑا حصہ دوسری لہر سے متاثر ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ بھارت میں تیز رفتار کے ساتھ چلائی جارہی ویکسنیشن مہم کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ شدید بیماری، ہسپتال میں داخل ہونے اور موت سے محفوظ ہوگئےہیں۔

مینن کا ماننا ہے کہ 'رواں برس مارچ سے جولائی تک دوسری لہر کے دوران لوگ بڑی تعداد میں کورونا سے متاثر ہوئے اور حفاظتی نقطہ نظر سے یہ بھارت کے لیے فائدہ مند ہے۔ وہیں ویکسین بھی اس کڑی میں لوگوں کے تحفظ میں مزید اضافہ کرے گی'۔

مینن نے کہا کہ ' ایسے افراد جو پہلے کورونا سے متاثر ہوئے اور بعد میں ویکسین بھی لیے وہ ایسے افراد کے بنسبت زیادہ محفوظ ہیں جنہوں نے صرف کووڈ ویکسین لیا ہے'۔ بہت سے سائنسی مطالعات بتاتے ہیں جو لوگ قدرتی طور پر کووڈ سے متاثر ہوئے اور ویکسینیشن سے پہلے صحت یاب ہوئے، ان میں 'ہائبرڈ امیونٹی' یا 'اجتماعی مدافعت' پیدا ہوجاتی ہے۔ جو ان لوگوں کے مقابلے میں بہتر قوت مدافعت رکھتے ہیں، جن کے پاس صرف ویکسینیشن سے اینٹی باڈیز پیدا ہوئی ہے'۔

مزید پڑھیں: کووڈ-19 کی تیسری لہر، دوسری لہر سے کم خطرناک ہو سکتی ہے : آئی سی ایم آر

ماہر وائرولوجسٹ انوراگ اگروال بھی مینن سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ' کیسز کی کم تعداد کی وجہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کا دوسری لہر کے دوران ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثر ہونا بھی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر بالغوں نے کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لی ہے، جس سے ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوا ہے'۔

سی ایس آئی آر انسٹی ٹیوٹ آف جینومکس اینڈ انٹیگریٹیو بائیولوجی کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ ' سیرو سروے سے معلوم ہے کہ آبادی کی اکثریت کا کورونا وبا سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے'۔

امیونولوجسٹ وینیتا بال نے مزید کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مکمل ویکسینیشن کے ساتھ کووڈ 19 کی وجہ بننے والا سارس سی او وی 2(SARS-CoV2) سے متاثر ہونا بیماری کی شدت میں کمی لانے کا باعث بنتا ہے۔

پورے ملک میں کووڈ معاملے میں کمی کو اچھی علامت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شمالی مشرقی ریاستیں خاص طور پر مزورم میں اب بھی کورونا کے معاملات میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔' اگرچہ ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں شمال مشرق ریاستوں میں کورونا کیسز بہت بعد میں بڑھنا شروع ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے علاقے، جہاں حفاظتی ٹیکوں کی کمی ہے اور انفیکشن کی شرح گزشتہ سال کم رہی ہے، وہاں دھیرے دھیرے کورونا پھیل سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'کورونا کی تیسری لہر بچوں کے لیے خطرناک'

گزشتہ ماہ یورپ اور شمالی امریکہ میں کورونا معاملات کی بڑھتی تعداد تشویشناک ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے بھارت نے بڑھتے ہوئے معاملات میں یوروپ کے نقش و قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بہت سے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا اور اگر تیسری لہر آتی بھی تو اس کا اثر اتنا زیادہ خطرناک نہیں ہوگا۔

چنئی میں انسٹی ٹیوٹ آف میتھمیٹیکل سائنسز (IMSc) میں فزکس کی پروفیسر سیتابھرا سنہا کے مطابق' ہندوستان کی دوسری لہر یوروپ کی تیسری لہر کا مشابہ ہے اور بھارت خوشی قسمت سے اس لہر سے بچ نکلا ہے۔

سائنسداں نے کہا کہ 'میرے خیال میں تیسری لہر پہلے ہی آئی تھی اور ستمبر کے وسط میں چلی گئی۔ اگر ہم اس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ایک اور لہر آسکتی ہے تو اس کے بارے میں پیشن گوئی کرنے کے لیے کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔

سنہا، جو وبائی امراض کے آغاز سے ہی ملک کے لیے تولیدی تعداد (R-value) کا سراغ لگا رہی ہیں، نے کہا کہ کم از کم قومی سطح پر تہوار کے بعد کوئی معاملے کا اضافہ نہیں ہوا ہے لیکن سیزن کے شروع ہونے سے پہلے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ آر ویلیو پہلے سے متاثر ہونے واف

سنہا نے کہا، فی الحال ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظامیہ علاقوں میں صرف میزورم اور جموں و کشمیر میں 1ہزار سے زیادہ ایکٹیو کیسز ہیں جن کی آر ویلیو 1 سے کافی زیادہ ہے۔ مغربی بنگال میں آر ویلیو صرف 1 سے زیادہ ہے۔

سنہا نے میڈیا کو بتایا کہ ریاستیں کچھ حد تک اچھا کام کر رہی ہیں، بڑے شہر جیسے ممبئی، پونے، چنئی اور کولکاتا میں آر ویلیو ایک سے زیادہ ہیں۔ اب تک بڑھتے ہوئے معاملات کی تعداد ان شہری علاقوں میں ہی موجود ہے۔ مجھے فکر اس بات کی ہے کہ موسم سرما میں صورتحال کس طرح ہوں گے'۔

جولائی میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے چوتھے قومی سیرو سروے کے مطابق ہندوستان میں 67.6 فیصد لوگوں میں کووڈ اینٹی باڈیز ہیں، جو انہیں وائرس کے خلاف قوت مدافعت کرتی ہے۔

حکام کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 82 فیصد اہل آبادی کو ویکسین کی پہلی خوراک مل چکی ہے، جبکہ تقریباً 43 فیصد کو مکمل طور پر ٹیکہ لگایا جا چکا ہے۔

بال کے مطابق دوسری لہر کے دوران اے سِمپٹومیٹک‘ یا ’عدم علامتی اور سِمپٹومیٹک کووڈ 19 کا پھیلاؤ یوروپ کے مقابلے بھارت میں ممکنہ طور پر زیادہ تھا۔ بال نے بتایا کہ اگر بھارت میں موسم سرما کے دوران معاملات کے بڑھنے کی بات کی جارہی ہے تو مسئلہ اتنا شدید نہیں ہے کیونکہ یوروپ کے کئی ممالک میں اس سے زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر میری پیشن گوئی ہےکہ آئندہ ماہ میں بھارت میں کورونا معاملات میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کے خطرناک شکل اختیار کرنے کے امکان کم ہیں۔

اگروال نے کہا کہ مستقبل میں بھارت کو کووڈ سے خطرہ نہیں ہے۔ بھارت میں کووڈ کا مستقبل اس کے نئے ویرینٹ اور متعدد عوامل پر منحصر ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.