Kashmiri Journalists Threat Case صحافیوں کو دھمکیوں کے کیس میں پولیس کا کریک ڈاؤن، ڈیجٹل آلات ضبط

author img

By

Published : Nov 19, 2022, 5:21 PM IST

Updated : Nov 19, 2022, 6:53 PM IST

چھاپوں کے دوران ڈیجیٹل آلات ضبط، چند افراد پوچھ گچھ کے لیے طلب

عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے کشمیری صحافیوں کو دی گئی حالیہ دھمکیوں کے پیش نظر، سری نگر پولیس نے ہفتہ کی صبح کشمیر بھر کے مختلف مقامات پر بیک وقت تلاشی کارروائی عمل میں لائی۔ تلاشی کارروائی کے دوران، پولیس بیان کے مطابق، ڈیجیٹل ڈیوائسز ضبط کرنے کے علاوہ چند افراد کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا۔Scribes’ Houses Searched

سری نگر (جموں و کشمیر): پولیس بیان کے مطابق کشمیر میں مقیم چند صحافیوں اور نامہ نگاروں کو براہ راست دھمکی دئے جانے کے بعد ایک ایف آئی آر نمبر 82/2022 قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت، دہشت گردی کے ہینڈلرز، سرگرم عسکریت پسندوں اور کالعدم تنظیم لشکر طیبہ اور اسکی ذیلی شاخ ٹی آر ایف سے وابستہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ Search Operation Across Kashmir

جموں و کشمیر پولیس بیان کے مطابق ’’تحقیقات کے دوران تشکیل دی گئی ٹیموں - ہر ایک ٹیم میں 4-5 ممبران شامل کیے گئے تھے، کی قیادت ایک انسپکٹر/ایس آئی رینک کا افسر کر رہا تھا، اور نگرانی متعلقہ ایس ڈی پی او انجام دے رہا تھا - نے وادی کشمیر کے کئی مقامات پر چھاپے مارے۔ چھاپوں کی نگرانی ایس پی ساؤتھ سٹی سری نگر لکش شرما نے کی اور 12 مقامات پر بیک وقت تلاشی شروع کی۔ وادیٔ کشمیر سے فرار افراد بشمول سجاد گل اور مختار بابا کے علاوہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ (ٹی آر ایف) کے سرگرم دہشت گردوں اور سری نگر، اننت ناگ اور کولگام اضلاع میں دیگر مشتبہ افراد کے گھروں پر چھاپہ مارا گیا۔‘‘ Raids Across Kashmir in connection with Threat to Scribes

پریس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’جن مقامات، گھروں پر چھاپہ مارا گیا اور تلاشی لی گئی ان میں نگین کے محمد رفیع، اننت ناگ میں خالد گل، لال بازار میں راشد مقبول، عیدگاہ میں مومن گلزار، کولگام میں باسط ڈار، رعناواری میں سجاد کرالیاری، صورہ میں گوہر گیلانی، قاضی شبلی اننت ناگ میں، سجاد شیخ المعرف سجاد گل ایچ ایم ٹی سری نگر، مختار بابا نوگام، وسیم خالد راولپورہ اور عادل پنڈت خانیار سری نگر کی رہائش گاہیں شامل ہیں۔‘‘

پولیس کا کہنا ہے کہ تلاشی کے دوران تمام قانونی ضابطوں کو ملحوظ رکھا گیا۔ ’’تلاشی کے دوران، تمام قانونی ضابطوں کی پیشہ ورانہ طور پر پیروی کی گئی اور تلاشی کے نتیجے میں کچھ مشتبہ افراد کو جانچ اور پوچھ گچھ کے لیے لایا گیا ہے۔ متعلقہ تلاشی ٹیموں کے ذریعے ضبط کیے گئے مواد میں موبائل، لیپ ٹاپ، میموری کارڈ، پین ڈرائیوز اور دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز، دستاویز، بینک کے کاغذات، ربڑ سٹیمپ، پاسپورٹ، دیگر مشتبہ کاغذات، نقد رقم، سعودی کرنسی وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ پولیس نے جن مقامات پر چھاپے مارے ہیں ان میں بیشتر رہائش گاہیں مقامی نامہ نگاروں اور صحافیوں کی ہیں تاہم پولیس بیان میں انہیں صحافی کے طور شناخت نہیں کی گئی ہے۔ نیز پولیس کی جانب سے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا طلب کیے گئے افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے یا محض پوچھ تاچھ کے بعد انہیں رہا کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: Kashmir Journalists Threats ایڈیٹرس گلڈ نے کشمیری صحافیوں کی دھمکیوں کی مذمت کی

دریں اثنا، پولیس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’معاملے کی تحقیقات زوروں پر ہے اور عام لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے سے متعلق کوئی بھی معلومات سری نگر پولیس کے نوٹس میں لائیں۔‘‘

واضح رہے کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ترکیہ میں مقیم کشمیری نوجوان مختار احمد بابا اور پاکستان میں مقیم سجاد گل ساکن ایچ ایم ٹی، صھافیوں کو حالیہ دنوں میں ڈرانے دھمکانے کے واقعات میں ملوث ہیں۔ مختار بابا ترکیہ منتقل ہونے سے قبل سرینگر میں صحافت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کو اطلاعات ہیں کہ بابا استنبول اور اسلام آباد کے درمیان کئی بار سفر کرچکے ہیں۔ پولیس نے کشمیر میں متعدد صحافیوں کو طلب کرنے اور انکے ڈیوائسز کو تحقیقات کیلئے ضبط کرنے کی کارروائی، اس بیان کے بعد کی ہے جس میں دی ریزسٹنس فرنٹ نامی مبینہ عسکریت پسند گروہ نے کم و بیش دو درجن صحافیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ بھارت کے خفیہ اداروں کیلئے کام کررہے ہیں۔ کشمیر سے شائع ہونیوالے دو بڑے انگریزی اخباروں رائزنگ کشمیر اور گریٹر کشمیر کے علاوہ کے این این ادارے سے وابستہ کم از کم پانچ نوجوان صحافیوں نے اس بیان کے بعد صحافت پیشہ ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پولیس نے جن افراد کو طلب کیا ہے ان میں کئی ایک ماضی میں گریٹر کشمیر اور رائزنگ کشمیر کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ عسکریت پسندوں نے 2018 میں رائزنگ کشمیر کے مالک اور چیف ایڈیٹر شجاعت بخاری کو ہلاک کردیا تھا۔ ہلاکت سے قبل بکاری کے خلاف پاکستان میں اپلوڈ کئے جانیوالے ایک بلاگ دی کشمیر فائٹ میں ایک تبصرہ شائع کیا تھا جس میں انکی سرگرمیوں کے بارے مین تبصرے کئے گئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس بلاگ میں شائع شدہ مواد ہی شجاعت بخاری کی ہلاکت کا محرک تھا۔ ورڈ پریس میں لکھے جانیوالے اس بلاگ کو بھارت کی حدود میں بلاک کردیا گیا ہے تاہم دنیا کے دیگر خطوں میں اسے پڑھا جارہا ہے۔

Last Updated :Nov 19, 2022, 6:53 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.