Wandhama Massacre وندہامہ سانحہ وادیٔ کشمیر کا سیاہ باب
Updated on: Jan 25, 2023, 2:53 PM IST

Wandhama Massacre وندہامہ سانحہ وادیٔ کشمیر کا سیاہ باب
Updated on: Jan 25, 2023, 2:53 PM IST
وندہامہ سانحہ کو دو دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اس سفاکانہ واقعہ کی یادیں تازہ ہیں جب نقاب پوش بندوق برداروں نے اس گاؤں میں اقلیتی برادری سے وابستہ 23 کشمیری پنڈتوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ 1998 Wandhama Massacre
ہر سال 25 اور 26 جنوری کی درمیانی رات کو سال 1998 میں پیش آنے والا ایک ناقابل فراموش اور خونین واقعہ وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع کے ایک گاؤں وندہامہ میں مقامی لوگوں کی یادوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ وحشتناک واقعہ 25 اور 26 جنوری 1998 کی درمیانی رات میں پیش آیا تھا۔ حالانکہ پنڈت برادری سے وابستہ آبادی کی اکثریت 1989 میں ہی کشمیر چھوڑ کر چلی گئی تھی لیکن وندہامہ کے اس گاؤں میں چار پانچ کنبے مقامی مسلمانوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، وہ اس رات مقامی مسجد کے اندر تراویح کی نماز ادا کر رہے تھے کہ انہوں نے اچانک گولیاں چلنے اور چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ وہ ماہ رمضان کی شب قدر تھی جب اس گاؤں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ لوگوں کو پہلے گمان گزرا کہ یوم جمہوریہ کے پس منظر میں کہیں تصادم ہوا ہو لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان گولیوں سے انہی کی بستی کے کئی لوگوں کے سینے چھلنی کردیے گئے ہیں۔ ڈر کے مارے کوئی نمازی مسجد سے باہر قدم نہیں رکھ سکا۔ 23 Kashmiri Pandits were killed in the dead of night
مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا جب ہم نماز پڑھ رہے تھے اور باہر سے ہماری عورتیں آئیں اور کہا کہ مندر سمیت پنڈتوں کے گھر آگ کی زد میں ہیں۔ ایک شخص نے یاد کرتے ہوئے کہا، "ہم یہ دیکھنے کے لیے مسجد سے باہر نکلے کہ کیا ہو رہا ہے اور مندر سمیت مکانات کو آگ کے شعلوں میں دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے۔ قریب جا کر دیکھا کہ چاروں طرف خون میں لت پت لاشیں تھیں۔ ''An Unforgettable Incident That Happened in the Year 1998
مقامی لوگوں نے بتایا کہ 26 جنوری کی صبح جب سب لوگ موقع پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جو 24 لوگ عورتیں، مرد بشمول بچے اس گاؤں میں رہتے تھے، ان میں سے 23 افراد جن کا تعلق چار پنڈت خاندانوں سے تھا خون میں لت پت پڑے تھے۔ مقامی لوگوں نے بتایا، کہ اس کمیونٹی کا ایک واحد رکن ونود کمار جسے آشو کے نام سے جانا جاتا ہے اس وقت 14 سال کا تھا، اس خونین حملے سے بچ گیا تھا اور وہ بھاگ کر پاس میں موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا۔ ہلاک شدہ لوگوں میں چار خاندانوں کے افراد اور کم از کم 5 مہمان بھی شامل تھے جو جموں سے یہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے تھے۔ وہ سب اس خونی واقع میں مارے گئے۔ حکام نے اس ہلاکتوں کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار قرار دیا۔ 1998 Wandhama Massacre
پولیس نے گاندربل تھانہ میں ایک کیس بھی درج کیا تھا۔ ہلاک شدگان کی جب گاندربل میں آخری رسومات ادا کی گئیں تو پورا کشمیر سوگوار تھا۔ ہر آنکھ نم تھی، ہر ایک چہرے سے مایوسی جھلک رہی تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق، آشو نے پولیس کو بتایا کہ "ہر طرف چیخ و پکار تھی، بندوق برداروں نے میرے خاندان کے تمام افراد کو گھسیٹ کر ان پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حد تو یہ ہوئی کہ ان درندوں نے مندر میں بھی آگ لگائی تھی۔ 1998 Wandhama Massacre
انہوں نے کہا کہ "وہ مقامی کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی اور بھائی چارے سے رہتے تھے۔"مقامی لوگوں نے کہا کہ اس قتل عام نے لوگوں کے دماغ اور روح پر گہرا نشان چھوڑ دیا ہے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے، ایک مقامی شہری نے کہا، "یہ پوری انسانیت کے قتل کے مترادف تھا اور ہمیں وہ بدقسمت واقعہ آج بھی یاد ہے اور ہم اس رات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔" Pandit houses including the temple are up in flames
ایک اور مقامی شخص نے کہا کہ "ہم اپنے پڑوسیوں کو غیر انسانی فعل کا شکار ہوتے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکتے تھے۔"انہوں نے کہا، "ہم ہمیشہ اپنے پنڈت بھائیوں کے ساتھ اپنی خوشی اور غم بانٹتے تھے اور یہ وہ ناقابل فراموش دن تھے جو انہوں نے ہمارے ساتھ بانٹے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں شامل ہوتے تھے۔ '' انہوں نے کہا کہ متاثرین سے تعلق رکھنے والے وہ رہائشی مکانات تباہ شدہ حالت میں پڑے ہیں، اور کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں، ان گھروں کو بغیر لوگوں کے دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔" 1998 Wandhama Massacre
مقامی لوگوں نے مزید کہا کہ بہت سے پنڈت جو یہاں یہ واقعہ ہونے سے پہلے وندہامہ سے جموں ہجرت کر گئے تھے، اکثر یہاں اپنے (مسلم) دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنے آتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ "وہ (پنڈت) یہاں آتے ہیں اور ہمارے ساتھ کئی دنوں تک رہتے ہیں اور جب بھی ہم جموں جاتے ہیں تو ہم ان سے وہاں ملتے ہیں، یہ ہماری آپسی محبت ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب کھینچ لاتی ہیں، اور وندہامہ کے جو پنڈت اس وقت جموں میں مقیم ہیں ان میں سے کئی لوگوں کی زمین اور مکانات آج بھی یہاں موجود ہیں اور کچھ لوگ آج بھی یہاں آکر کئی مہینوں تک یہاں رہتے ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے اور پنڈتوں کے درمیان بھائی چارہ اب بھی برقرار ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ان اس میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہئے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں۔ The 23 Kashmiri Pandits were killed
مزید پڑھیں: گاؤ کدل قتل عام کی تلخ یادیں بتیس سال بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ
