Ladakh After Abrogation of Article 370: لداخی لوگ ریاستی درجہ چاہتے ہیں یا چھٹا شیڈول؟

author img

By

Published : Aug 4, 2022, 10:17 PM IST

Etv Bharat

پانچ اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے جموں و کشمیر اور لداخ کو دو یوٹیز میں تقسیم کر دیا گیا۔ مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کے لیے اسمبلی جب کہ لداخ کو بغیر اسمبلی طرز کی یوٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ Abrogation of Article 370

سرینگر: پانچ اگست 2021 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے تین سال مکمل ہو گئے۔ مرکزی حکومت نے لداک کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ یعنی یو ٹی کا درجہ دیا۔ دلچسپ بات ہے کہ لداخ کی آبادی محض 2.7 لاکھ ہے، اور کم و بیش تمام مقامی باشندوں کو شیڈولڈ قبائل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ گذشتہ تین برسوں میں خطے میں کافی کچھ تبدیل ہوئی تاہم ریاستی درجہ کی مانگ باشندگان کی درینہ مانگ رہی۔ State for Ladakh

15 جولائی کو دلائی لامہ نے لداخ کا ایک ماہ طویل دورہ شروع کیا۔ یہ دورہ عالمی وبا کورونا وائرس کے آغاز کے بعد سے ہماچل پردیش میں دھرم شالہ سے باہر ان کا پہلا دورہ ہے جو ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب لداخ اپنی شناخت، ثقافت اور زمین کے تحفظ کے لیے آئینی تحفظات کے لیے مرکز مطالبہ کر رہا ہے۔ جہاں بدھ مت اکثریتی ضلع لیہہ نے مرکز کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے اقدام کا خیر مقدم کیا تھا لیکن مسلم اکثریتی کرگل نے اس کی مذمت کی تھی۔ تاہم لیہہ میں جوش و خروش اس وقت ختم ہوا جب یہ اعلان کیا گیا کہ لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی اور انتظامیہ لیفٹیننٹ گورنر اور بیوروکریٹس کے ہاتھ میں ہوگی جن میں سے بہت سارے لوگ باہر سے ہیں۔ UT Ladakh with Out Legislature

Ladakh After Abrogation of Article 370
Ladakh After Abrogation of Article 370
گذشتہ دو برسوں میں وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے لیہہ اور کرگل کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے، لیکن ان کے وعدوں سے لداخی لیڈران مطمئن نہیں ہوئے۔ دلائی لامہ کا دورہ کرگل اس لیے اہم مانا جاتا ہے کیونکہ وہ بدھ مت کے پیروکاروں اور بھارتی سرکار دونوں کی طرف سے قابل احترام مانے جاتے ہیں۔ جموں میں اپنے قیام کے دوران 87 سالہ نوبل امن انعام یافتہ دلائی لامہ نے کہا کہ وہ آزادی نہیں بلکہ "تبت کے لیے بامعنی خود مختاری اور تبتی بدھ ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔" وہ تبت کے بارے میں بات کر رہے تھے، لیکن پیغام لداخی بدھسٹوں کے مطالبات کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔ وہ چھٹا شیڈول (آئین) کے تحت بوڈو لینڈ ٹیریٹورل کونسل Bodoland Territorial Council جیسا انتظام چاہتے ہیں تاکہ ان کی الگ شناخت کو باہر والوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ چھٹا شیڈول قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کو زمین کی ملکیت اور سرکاری ملازمتوں پر پابندی کی اجازت دیتا ہے۔


مرکزی حکومت لداخ کے مسئلے پر بیدار تب ہوا جب لیہہ میں سیاسی جماعتوں بشمول بی جے پی اور کانگریس نے مذہبی اور سماجی گروپوں کے ساتھ مل کر عوامی تحریک (پی ایم) قائم کی اور لیہہ میں لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ سنہ 2020 میں کرگل میں پارٹیوں اور مذہبی اور سماجی گروپوں نے کرگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کا آغاز کیا تاکہ لداخ کو ریاستی حیثیت اور اس کی خصوصی حیثیت کی بحالی پر زور دیا جا سکے۔ کرگل میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کا حصہ ہو۔ Dalai Lama Visit Ladakh

Ladakh After Abrogation of Article 370
Ladakh After Abrogation of Article 370
انتخابات کا بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیپلز مومنٹ کے رہنماؤں سے لداخ کے لیے "چھٹے شیڈول کی طرح" تحفظات کا وعدہ کیا۔ وہیں بی جے پی نے پہاڑی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں 15 نشستوں میں کامیابی حاصل کی اور کانگریس نے نو نشستیں حاصل کیں۔ جنوری 2021 میں وزارت داخلہ نے لداخ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی کے تحت ایک کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس علاقے کے بی جے پی لیڈروں کے ایک وفد نے دہلی میں امت شاہ سے اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے دوبارہ ملاقات کے بعد کیا ہے۔Hill Development Council Ladakh Kargil Electionsریڈی نے جولائی 2021 میں کے ڈی اے کے قائدین سے ملاقات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ تاہم یونین ٹیریٹری کے طور پر لداخ کی دوسری سالگرہ سے کچھ دن قبل لداخ کی دو تنظمیں پی ایم اور کے ڈی اے نے آئینی تحفظات کے ساتھ مکمل ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے لوک سبھا کی ایک اور سیٹ راجیہ سبھا کی دو سیٹیں، اور مقامی لداخی نوجوانوں کے لیے 10 ہزار ملازمت کی آسامیاں تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا۔چند ہفتوں بعد دونوں جماعتوں نے اپنے مطالبات کو تسلیم کرنے میں تاخیر کے خلاف احتجاج کے لیے لداخ بند کی کال دی تھی۔ لیکن جب ریڈی کی جگہ نئے وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے لیہہ پہنچے۔ دونوں جماعتوں نے ملاقات کے لیے ان کی دعوت قبول کرلی اور اپنے چار مطالبات پیش کر دیے۔ سابق ایم ایل اے اور کے ڈی اے کے شریک چیئرمین اصغر کربلائی کا کہنا تھا کہ" رائے نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ وزارت داخلہ اور لداخ کے نمائندوں کی ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دیں گے اور نوجوانوں کے لیے جلد ہی بھرتی کی پالیسی مرتب کریں گے۔"وہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ "رائے کے لیہہ کے دورے کے بعد دونوں جماعتوں نے گزشتہ اگست میں مشترکہ کمیٹی کا حصہ بننے کے لیے نو نام بھیجے، جن میں سے پانچ لیہہ سے اور چار کرگل سے تھے لیکن ابھی تک کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں ہوا۔"
what-ladakh-got-after-abrogation-of-article-370
کیا لداخی لوگ ریاستی درجہ یا چھٹا شیڈول چاہتے ہیں؟
امسال 13 جون کو امت شاہ نے تھوپستان چھیوانگ، جو لداخ کے پی ایم کے چیئرمین اور لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ہیں کو دہلی میں بات چیت کے لیے مدعو کیا تھا۔ تھوپستان چھیوانگ نے کہا کہ امت شاہ نے لداخ کو دفعہ 371 کے تحت تمام حفاظتی اقدامات کی پیشکش کی تھی، لیکن چھٹا شیڈول کا نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "اس طرح کے تحفظات کو کسی بھی وقت ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہم چھٹے شیڈول کا مطالبہ کرتے ہیں۔"Sixth Schedule Indian Constitutionچیوانگ نے کہا کہ انہوں نے چھٹے شیڈول کی حیثیت پر اصرار کیا کیونکہ لداخ میں 97 فیصد آبادی قبائلی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ"جب آئین میں قبائلیوں کے لیے خصوصی انتظام ہے تو اس کا اطلاق لداخ پر کیوں نہیں کیا جا رہا؟ چھٹے شیڈول کے تحت، لیہہ اور کرگل میں پہاڑی ترقیاتی کونسلوں کو راج ، زبان اور زمین کے لیے قانون بنانے اور ٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، لیکن دفعہ 371 ایسے اختیارات کی اجازت نہیں دے گا۔" انہوں نے کہا کہ پی ایم جماعت اپنے اگلے قدم کا فیصلہ دلائی لامہ کے دورے کے بعد کرے گا۔ کے ڈی اے کے ایک سینیئر رکن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرکز ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کو قبول نہیں کرے گا جس میں کچھ مبصرین متفق ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کا مقصد لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لیے مرکز پر دباؤ ڈالنا ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اگر مرکز لیہہ میں بدھ مت کے پیروکاروں کو مطمئن کر سکتا ہے تو تعطل ختم ہو جائے گا۔
Ladakh After Abrogation of Article 370
Ladakh After Abrogation of Article 370
لیہہ کے ایک سینیئر سیاسی رہنما نے کہا کہ چونکہ لداخ کا مرکزی علاقہ بغیر کسی اسمبلی کے بنایا گیا تھا، چھٹا شیڈول لیہہ اور کرگل کی پہاڑی کونسلوں کو قانون سازی کا درجہ دے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ " خطے میں ہونے والے واقعات پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔ کچھ غیر مقامی لوگوں نے لیہہ میں ہوٹل قائم کرنے کے لیے زمین خریدی تھی۔ ہوسپٹلیٹی کی صنعت میں مقامی لوگوں نے بظاہر دکھا دیا کہ وہ ان غیر مقامی لوگوں کو کوئی سروس فراہم نہیں کریں گے۔"شیڈولڈ ٹرائب کے قومی کمیشن نے لداخ کو چھٹے شیڈول کے تحت شامل کرنے کی سفارش کی تھی، یہ مشائدہ کرتے ہوئے کہ یہ خطہ بنیادی طور پر قبائلی ہے اور اس کے الگ ثقافتی ورثے کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ فی الحال چھٹا شیڈول صرف شمال مشرقی ریاستوں آسام، میگھالیہ، میزورم اور تریپورہ پر لاگو ہوتا ہے، لیکن ضرورت پڑنے پر سرکار آئین میں ترمیم کر سکتی ہے۔National Commission for Scheduled Tribesلیہہ کے کچھ سیاسی لیڈران کا خیال ہے کہ مرکز چھٹے شیڈول کے درجہ کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ وہ اسٹریٹجک خطے پر براہ راست کنٹرول چاہتا ہے۔ تاہم چین کے ساتھ فوجی تعطل کے ساتھ، مرکز لیہہ میں ان لوگوں کو مخالف نہ کرنے کے لیے محتاط ہے جو کرگل کے لوگوں کی طرح کشمیر کے ساتھ ہمدردی اور شناخت نہیں رکھتے۔لیہہ کے زیادہ تر لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کا درجہ لداخ کو فائدہ پہنچا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تعلیم اور صحت کے لیے فنڈز میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیہہ کے سونم نوربو میموریل ڈسٹرکٹ ہسپتال کو جدید ترین مشینوں سے لیس کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس مرکز نے لداخ کے لیے پہلے میڈیکل اور پیرا میڈیکل کالج اور 500 بستروں کے ہسپتال کی منظوری دی۔ لداخ اور کشمیر کو جوڑنے والی 18 کلومیٹر لمبی زوجیلا ٹنل پر کام تیز ہو گیا ہے اور یہ 2025 تک تیار ہو جائے گی۔میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ، جو ٹنل بنا رہی ہے کے پروجیکٹ انچارج ہرپال سنگھ نے کہا، زوجیلا ٹنل بنے سے لداخ سفر کا وقت ڈھائی گھنٹے کم ہو جائے گا۔مرکز کے زیر انتظام حکومت نے مقامی نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کا عمل بھی شروع کیا ہے۔اس سب کے باوجود امت شاہ کے ریاستی مطالبے اور چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے بارے میں واضح نہ کرنے کے بعد لداخ میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔کربلائی نے کہا کہ"لداخ ہمارے ایجنڈے کی حمایت میں متحد ہے۔ ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اگر مرکز نے ہمارے خدشات کو دور نہیں کیا تو ہم لوگوں کو متحرک کریں گے"Amit Shah On Ladakh Sixth Schedule

اردو لداخ کی سرکاری زبان نہیں رہی!

لداخ کے علاقے میں انتظامیہ نے اردو زبان کی سرکاری حیثیت کو ختم کر دیا ہے اور اسے یونین ٹیریٹری کے ایک اہم ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کی ضروریات سے خارج کر دیا ہے۔ جہاں اس علاقے کے بی جے پی رکن پارلیمان نے اس اقدام کی ستائش کی ہے اور حکومتی فیصلے کو خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے اپنا پیغام جاری کیا ہے۔وہیں بہت سے سیاست دان اس فیصلے کو غلط مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کرگل اور لیہہ کو تقسیم کرنے اور مسلمانوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کے درمیان درار پیدا کرنے کا فیصلہ ہے۔Urdu Removed Official Language of ladakh

what-ladakh-got-after-abrogation-of-article-370
what-ladakh-got-after-abrogation-of-article-370
لداخ کی انتظامیہ نے امسال جنوری میں محکمہ ریونیو میں مختلف ملازمتوں میں بھرتی کے لیے اردو کے لازمی شرط کو ہٹا دیا تھا۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ باضابطہ نوٹیفکیشن میں محکمہ ریونیو میں متعدد آسامیوں کے لیے ’اردو ‘ بیچلرز ڈگری کے بجائے کسی بھی تسلیم شدہ یونیورسٹی سے بیچلرز ڈگری کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔بی جے پی رکن پارلیمان جمیانگ سیرنگ نامگیال نے اس پیشرفت پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا لہ "اب لداخ ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کے لیے اردو لازمی زبان نہیں رہی۔ دفعہ 370 کی نفسیاتی استعمار سے حقیقی آزادی کے ساتھ ساتھ لداخ پر کشمیری حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ اردو زبان سے آزادی۔وہیں کربلی کہتے ہیں کہ بی جے پی اس طرح کے مسائل لے کر خطے کی مختلف برادریوں میں بدگمانی پیدا کرنا چاہتی ہے۔کربلی کا کہنا ہے کہ یہ غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ اردو زبان مسلمانوں کی ہے اور اسے کشمیری حکمرانوں نے 1947 کے بعد نافذ کیا تھا اور اس کا دفعہ 370 سے کوئی تعلق ہے۔Urdu Not Related to Muslim Community

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.