ETV Bharat / opinion

وقف ترمیمی قانون مسلمان کے لیے کیوں زہر کا گھونٹ ہے؟ وقف کی اسلامی تاریخ سے سمجھیں - WAQF LAW INTERFERES WITH RELIGION

وقف ترمیمی قانون کو مسلمان اور سیکولر لوگ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی قرار دے رہے ہیں۔

وقف ترمیمی قانون کو مذہب و شریعت میں مداخلت کیوں کہا جا رہا ہے؟ قرآن و احادیث کی روشنی میں
وقف ترمیمی قانون کو مذہب و شریعت میں مداخلت کیوں کہا جا رہا ہے؟ قرآن و احادیث کی روشنی میں (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : April 18, 2025 at 7:54 AM IST

Updated : April 19, 2025 at 8:56 AM IST

10 Min Read

حیدرآباد: مرکزی حکومت نے وقف قانون 1995 میں کئی ایسے ترامیم کیے ہیں جو مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ چونکہ مسلمان وقف کو اسلامی قانون کا ایک اہم جزاور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن باب مانتے ہیں اس لیے مودی حکومت کے ترامیم کی سڑکوں پر اور عدالتوں میں مخالفت کی جا رہی ہے۔ وقف ترمیمی قانون 2025 کو مسلمان مذہب اور شریعت میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ یہاں جانیے مذہب اسلام میں وقف کی اہمیت پر کیا کہا گیا ہے۔

وقف ایک عبادت ہے:

وقف ایک ایسی عبادت ہےجو مسلمانوں کو معاشرتی اور معاشی زندگی کی قوت و توانائی عطا کرتی ہے، اگر مسلمان اس کو اپنی صحیح روح کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرتی ومعاشی مسائل حل نہ ہو جائیں۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نےمالداروں کو ہدایت دی ہے کہ ان کے مال میں غریبوں کا بھی حق ہے:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ

ترجمہ: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور وہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔

رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے وقف کی شروعات کی:

اسلام میں شروع سے لے کر آج تک وقف کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سب سے پہلے اللہ کے رسولﷺ نے مسجد قبا کے لیے زمین وقف کی۔ اس کے بعد سب سے پہلا وقف خیری نبی اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم کے ذریعہ مدینہ میں سات باغوں کاوقف کرنا ہے، یہ باغ مخیریق نامی ایک یہودی کے تھے جو ہجرت سے 32ویں ماہ کے آغاز میں اس وقت مارا گیا جب وہ غزوہ ٔاحد میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہا تھا۔ اس نے وصیت کی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میرے اموال محمدﷺ کے لئے ہوں گے۔ وہ انہیں اللہ کی مرضی سے صرف کریں گے، چنانچہ غزوہ ٔاحد میں جب وہ مارا گیا اور وہ یہودیت پر ہی باقی تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مخیریق اچھا یہودی تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان ساتوں باغوں کو قبضہ میں لیا پھر انہیں صدقہ (یعنی وقف) کر دیا، پھر اس کے بعد حضرت عمرؓ کا وقف ہوا۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کو خیبر کی ایک زمین ملی تو انہوں نے اس زمین کو وقف کردیا۔

دین اسلام میں وقف کے عظیم مقاصد:

دین اسلام میں وقف کے بہت ہی اعلیٰ اور عظیم مقاصد ہیں۔ بالخصوص انسانیت کی خیر خواہی، ضرورت مندوں، معذورین اور بیواؤں کی کفالت اس کی بنیاد ہیں۔ وقف کرنے کی شکلیں درج ذیل ہیں۔

1- وقف برائے قرآن و حدیث، مساجد وتعلیم، مدارس و جامعات، اور لائبریریوں کی تعمیر

2- پانی کی فراہمی کے لیے وقف، مسلمان پانی کی سبیلیں لگواتے تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔

3- غذا کی فراہمی کے لیے وقف: محتاجوں، فقراو مساکین، مسافر وپردیسی اور طلباء کے کھانے کے لیے اوقاف قائم کیے جاتے تھے۔

4- بیواؤں، یتیموں، معذوروں اور مطلقہ عورتوں کے لیے وقف

5- حفظان صحت کے لیے وقف

6- حاجیوں کے رہنے اور کھانے پینے کے لیے وقف

7- مقامات مقدسہ کے لیے اوقاف

8- اولاد، اعزہ و اقارب کے لیے وقف

9- سرحدوں کی حفاظت، جہاد اور قیدیوں کو چھڑانے کے لیے وقف

10- مسافر کے لیے وقف

11- ماحولیات کی حفاظت، حیوانات اور پرندوں کے لیے وقف

12- شادیوں اور دلہن کے زیورات کے لیے وقف

13- غریب بچوں کے کھیل کود کے میدانوں اور پارک بنانے کے لیے وقف

14- دودھ پلانے والی خواتین کے لیے وقف

15- ویران اوقاف کو آباد کرنے او رکار آمد بنانے کے لیے وقف

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے وقف کرنے کی ترغیب دلائی، تو حضرت عثمانؓ نے اس ترغیب پر لبیک کہا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمدﷺ مدینہ تشریف لائے، وہاں رومہ کے کنواں کے علاوہ کوئی میٹھا پانی نہیں تھا، تو آپ نے فرمایا، کوئی ہے جو بئر رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ اس میں مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے کہ اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے خیر ہو؟ تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرلیا یعنی اسے وقف کر دیا (ترمذی)

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اوقاف کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہوئے ، وہاں مختلف دینی و خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں نے اپنی جائیدادوں کو وقف کیا۔ ان اوقاف سے مسلمانوں کے پسماندہ افراد اور جماعتوں کی مدد کی جاتی تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کی سبیل نکالتی تھی، لیکن جیسے ہی اس ملک میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اوقاف کی صورتحال ابتر ہونے لگی۔ برٹش حکومت نے بہت سے اوقاف ضبط کرلیے اور بے شمار اوقاف کو اپنی ملکیت میں لے کر ان کی مالی حیثیت کو ختم کر دیا۔ انگریزی حکومت کی اس کارروائی کو دیکھ کر کئی لوگوں نے اوقافی جائیدادوں کو ہڑپ لیا اور کرایہ دار کے بجائے ان کے مالک بن بیٹھے ۔ اس طرح اوقاف کی لوٹ مار کو دیکھ کر امت مسلمہ کے فکر مند اور خیر خواہ افراد نے انگریز ی حکومت سے تحفظ اوقاف کے لئے وقف قانون پاس کرنے کا مطالبہ کیا، چنانچہ 1923 میں مسلم وقف ایکٹ نافذ ہوا اور ملک کی آزادی کے بعد سنہ 1954 میں نیا وقف ایکٹ منظور ہوا۔ کافی ترمیمات کے بعد 1995میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ 1995 منظور کیا اور اس طرح آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اوقاف کے تعلق سے کئی قوانین پاس ہوئے لیکن ان قوانین سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔

وقف ترمیمی قانون 2025 کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

بھارت کی موجودہ حکومت وقف ایکٹ 1995 میں ایسی ترامیم کر چکی ہے جسے ایک مسلمان کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وقف کی اسلامی تاریخ کو دیکھیں تو مسلمان کا دل یہ کبھی گوارہ نہیں کرے گا۔ سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف قانونی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس میں عرضی گزاروں نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو نہ صرف مذہب میں مداخلت قرار دیا ہے بلکہ آئین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں آرٹیکل 14 (مساوات کا حق)، 25 (مذہب پر عمل کرنے کی آزادی)، 26 (مذہبی امور کو منظم کرنے کی آزادی)، 29 (اقلیتی حقوق) اور 300 اے (جائیداد کا حق) کے تحت فراہم کردہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں ان وقف ترمیمی قانون کی ان دفعات کو چیلنج کیا گیا:

1- صارفین کے ذریعہ وقف کی شق کو ہٹائے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

2- سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کی شمولیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

3- کونسل اور بورڈ میں خواتین ممبران کی شمولیت کی حد دو کر دینے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

4- اپنی ملکیت وقف کرنے کے لیے پانچ سال تک ایک عملی مسلمان کے طور پر رہنے کی پیشگی شرط کو چیلنج کیا گیا ہے۔

5- نئے قانون میں وقف الاولاد کو کمزور کرنے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

6- وقف ایکٹ 1995 کے نام کو تبدیل کیے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

7- ٹریبونل کے حکم کے خلاف اپیل کے معاملے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

8- حکومت کو سرکاری املاک پر قبضے سے متعلق تنازعات میں مداخلت کرنے کی اجازت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

9- وقف ایکٹ پر لمیٹیشن ایکٹ کے اطلاق کو چیلنج کیا گیا ہے۔

10- محکمہ آثار قدیمی (اے ایس آئی) کے تحت محفوظ یادگاروں پر بنائے گئے وقفوں کو کالعدم قرار دینا

11- مقررہ علاقوں پر وقف کے قیام پر پابندی کو چیلنج کیا گیا ہے۔

مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس کرایا ہے۔ راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ لوک سبھا میں 288 ممبران پارلیمنٹ نے بل کی حمایت میں جبکہ 232 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

حیدرآباد: مرکزی حکومت نے وقف قانون 1995 میں کئی ایسے ترامیم کیے ہیں جو مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ چونکہ مسلمان وقف کو اسلامی قانون کا ایک اہم جزاور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن باب مانتے ہیں اس لیے مودی حکومت کے ترامیم کی سڑکوں پر اور عدالتوں میں مخالفت کی جا رہی ہے۔ وقف ترمیمی قانون 2025 کو مسلمان مذہب اور شریعت میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ یہاں جانیے مذہب اسلام میں وقف کی اہمیت پر کیا کہا گیا ہے۔

وقف ایک عبادت ہے:

وقف ایک ایسی عبادت ہےجو مسلمانوں کو معاشرتی اور معاشی زندگی کی قوت و توانائی عطا کرتی ہے، اگر مسلمان اس کو اپنی صحیح روح کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرتی ومعاشی مسائل حل نہ ہو جائیں۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نےمالداروں کو ہدایت دی ہے کہ ان کے مال میں غریبوں کا بھی حق ہے:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ

ترجمہ: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور وہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔

رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے وقف کی شروعات کی:

اسلام میں شروع سے لے کر آج تک وقف کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سب سے پہلے اللہ کے رسولﷺ نے مسجد قبا کے لیے زمین وقف کی۔ اس کے بعد سب سے پہلا وقف خیری نبی اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم کے ذریعہ مدینہ میں سات باغوں کاوقف کرنا ہے، یہ باغ مخیریق نامی ایک یہودی کے تھے جو ہجرت سے 32ویں ماہ کے آغاز میں اس وقت مارا گیا جب وہ غزوہ ٔاحد میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہا تھا۔ اس نے وصیت کی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میرے اموال محمدﷺ کے لئے ہوں گے۔ وہ انہیں اللہ کی مرضی سے صرف کریں گے، چنانچہ غزوہ ٔاحد میں جب وہ مارا گیا اور وہ یہودیت پر ہی باقی تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مخیریق اچھا یہودی تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ان ساتوں باغوں کو قبضہ میں لیا پھر انہیں صدقہ (یعنی وقف) کر دیا، پھر اس کے بعد حضرت عمرؓ کا وقف ہوا۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کو خیبر کی ایک زمین ملی تو انہوں نے اس زمین کو وقف کردیا۔

دین اسلام میں وقف کے عظیم مقاصد:

دین اسلام میں وقف کے بہت ہی اعلیٰ اور عظیم مقاصد ہیں۔ بالخصوص انسانیت کی خیر خواہی، ضرورت مندوں، معذورین اور بیواؤں کی کفالت اس کی بنیاد ہیں۔ وقف کرنے کی شکلیں درج ذیل ہیں۔

1- وقف برائے قرآن و حدیث، مساجد وتعلیم، مدارس و جامعات، اور لائبریریوں کی تعمیر

2- پانی کی فراہمی کے لیے وقف، مسلمان پانی کی سبیلیں لگواتے تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔

3- غذا کی فراہمی کے لیے وقف: محتاجوں، فقراو مساکین، مسافر وپردیسی اور طلباء کے کھانے کے لیے اوقاف قائم کیے جاتے تھے۔

4- بیواؤں، یتیموں، معذوروں اور مطلقہ عورتوں کے لیے وقف

5- حفظان صحت کے لیے وقف

6- حاجیوں کے رہنے اور کھانے پینے کے لیے وقف

7- مقامات مقدسہ کے لیے اوقاف

8- اولاد، اعزہ و اقارب کے لیے وقف

9- سرحدوں کی حفاظت، جہاد اور قیدیوں کو چھڑانے کے لیے وقف

10- مسافر کے لیے وقف

11- ماحولیات کی حفاظت، حیوانات اور پرندوں کے لیے وقف

12- شادیوں اور دلہن کے زیورات کے لیے وقف

13- غریب بچوں کے کھیل کود کے میدانوں اور پارک بنانے کے لیے وقف

14- دودھ پلانے والی خواتین کے لیے وقف

15- ویران اوقاف کو آباد کرنے او رکار آمد بنانے کے لیے وقف

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے وقف کرنے کی ترغیب دلائی، تو حضرت عثمانؓ نے اس ترغیب پر لبیک کہا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمدﷺ مدینہ تشریف لائے، وہاں رومہ کے کنواں کے علاوہ کوئی میٹھا پانی نہیں تھا، تو آپ نے فرمایا، کوئی ہے جو بئر رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ اس میں مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے کہ اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے خیر ہو؟ تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرلیا یعنی اسے وقف کر دیا (ترمذی)

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اوقاف کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہوئے ، وہاں مختلف دینی و خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں نے اپنی جائیدادوں کو وقف کیا۔ ان اوقاف سے مسلمانوں کے پسماندہ افراد اور جماعتوں کی مدد کی جاتی تھی۔ مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کی سبیل نکالتی تھی، لیکن جیسے ہی اس ملک میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اوقاف کی صورتحال ابتر ہونے لگی۔ برٹش حکومت نے بہت سے اوقاف ضبط کرلیے اور بے شمار اوقاف کو اپنی ملکیت میں لے کر ان کی مالی حیثیت کو ختم کر دیا۔ انگریزی حکومت کی اس کارروائی کو دیکھ کر کئی لوگوں نے اوقافی جائیدادوں کو ہڑپ لیا اور کرایہ دار کے بجائے ان کے مالک بن بیٹھے ۔ اس طرح اوقاف کی لوٹ مار کو دیکھ کر امت مسلمہ کے فکر مند اور خیر خواہ افراد نے انگریز ی حکومت سے تحفظ اوقاف کے لئے وقف قانون پاس کرنے کا مطالبہ کیا، چنانچہ 1923 میں مسلم وقف ایکٹ نافذ ہوا اور ملک کی آزادی کے بعد سنہ 1954 میں نیا وقف ایکٹ منظور ہوا۔ کافی ترمیمات کے بعد 1995میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ 1995 منظور کیا اور اس طرح آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اوقاف کے تعلق سے کئی قوانین پاس ہوئے لیکن ان قوانین سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔

وقف ترمیمی قانون 2025 کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

بھارت کی موجودہ حکومت وقف ایکٹ 1995 میں ایسی ترامیم کر چکی ہے جسے ایک مسلمان کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وقف کی اسلامی تاریخ کو دیکھیں تو مسلمان کا دل یہ کبھی گوارہ نہیں کرے گا۔ سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف قانونی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس میں عرضی گزاروں نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو نہ صرف مذہب میں مداخلت قرار دیا ہے بلکہ آئین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں آرٹیکل 14 (مساوات کا حق)، 25 (مذہب پر عمل کرنے کی آزادی)، 26 (مذہبی امور کو منظم کرنے کی آزادی)، 29 (اقلیتی حقوق) اور 300 اے (جائیداد کا حق) کے تحت فراہم کردہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں ان وقف ترمیمی قانون کی ان دفعات کو چیلنج کیا گیا:

1- صارفین کے ذریعہ وقف کی شق کو ہٹائے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

2- سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کی شمولیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

3- کونسل اور بورڈ میں خواتین ممبران کی شمولیت کی حد دو کر دینے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

4- اپنی ملکیت وقف کرنے کے لیے پانچ سال تک ایک عملی مسلمان کے طور پر رہنے کی پیشگی شرط کو چیلنج کیا گیا ہے۔

5- نئے قانون میں وقف الاولاد کو کمزور کرنے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

6- وقف ایکٹ 1995 کے نام کو تبدیل کیے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

7- ٹریبونل کے حکم کے خلاف اپیل کے معاملے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

8- حکومت کو سرکاری املاک پر قبضے سے متعلق تنازعات میں مداخلت کرنے کی اجازت کو چیلنج کیا گیا ہے۔

9- وقف ایکٹ پر لمیٹیشن ایکٹ کے اطلاق کو چیلنج کیا گیا ہے۔

10- محکمہ آثار قدیمی (اے ایس آئی) کے تحت محفوظ یادگاروں پر بنائے گئے وقفوں کو کالعدم قرار دینا

11- مقررہ علاقوں پر وقف کے قیام پر پابندی کو چیلنج کیا گیا ہے۔

مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس کرایا ہے۔ راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ لوک سبھا میں 288 ممبران پارلیمنٹ نے بل کی حمایت میں جبکہ 232 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : April 19, 2025 at 8:56 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.