ETV Bharat / jammu-and-kashmir
'زاہد مختار ایک ہمہ جہت شخصیت کا رخصت ہونا اردو ادب و صحافت کا نا قابل تلافی نقصان'
زاہد کے انتقال کی خبر نے ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں میں گہرے دکھ اور افسوس کی لہر دوڑا دی ہے۔

Published : October 9, 2025 at 4:53 PM IST
|Updated : October 9, 2025 at 5:02 PM IST
اننت ناگ، جموں و کشمیر(میر اشفاق): ادیب، قلمکار، اداکار اور براڈکاسٹر زاہد مختار مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے ۔ ان کا انتقال اپنے آبائی قصبہ اننت ناگ کی نئی بستی میں جمعرات کی صبح ہوا۔ ان کی پیدائش 1952 میں ہوئی تھی اور وہ 73 برس کے تھے۔
زاہد کے انتقال کی خبر نے ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں میں گہرے دکھ اور افسوس کی لہر دوڑا دی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے قلم، آواز اور کردار کے ذریعے اردو زبان و ثقافت کی خدمت کا فریضہ بے لوث انداز میں انجام دیا۔
زاہد مختار کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنی پہچان اور مشن بنایا۔صحافت، ادب اور نشریات تینوں میدانوں میں ان کی خدمات گراں قدر رہی ہیں۔ وہ ایک زیرک صحافی، باذوق ادیب، دلنشین براڈکاسٹر اور درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ ان کی تحریریں نہ صرف معلوماتی اور فکری گہرائی لیے ہوتی تھیں بلکہ زبان کی لطافت، شائستگی اور سچائی کا عکس بھی پیش کرتی تھیں۔

زاہد مختار کئی دہائیوں تک اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ انہوں نے مختلف معروف اخبارات و جرائد میں بطور مدیر، کالم نگار اور فیچر رائٹر خدمات انجام دیں۔ ان کے تجزیے سنجیدہ، متوازن اور غیر جانب دار ہوا کرتے تھے۔ سیاست، سماج، تعلیم، مذہب اور تہذیب ہر موضوع پر ان کی گہری گرفت اور وسیع مطالعہ جھلکتا تھا۔انہوں نے طویل وقت تک دوردرشن میں نہ صرف ایک بہتر اداکار کے طور پر کام کیا بلکہ براڈکاسٹنگ میں بھی اپنا لوہا منوایا ۔زاہد مختار المختار پبلیکیشنز کے مالک تھے ،وہ المختار اخبار کے مدیر اعلی رہ چکے ہیں ،آج بھی ان کا لفظ لفظ میگزین شائع ہوتا ہے ۔

وہ ایک قلمکار بھی تھے ان کی تحریر کردہ کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ہیں جس پر زاہد کو ادبی دنیا میں نہ صرف کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے بلکہ ادبی دنیا میں انہیں ایک باوقار ادیب کے طور پر پہچان حاصل ہوئی ۔ زاہد مختار نے شعری مجموعہ ابتدا، جہلم کا تیسرا کنارہ ،دستک سی دل پر،بزم اہل قلم ،کچرا سمیت تقریبا ایک درجن کے قریب کتابیں اور افسانے لکھے ہیں۔

زاہد مختار ایک باوقار ادیب تھے۔ ان کے افسانے، خاکے، مضامین اور کالم اردو ادب میں اپنا ایک الگ رنگ رکھتے تھے۔ انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور اسے لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی تحریروں میں تجربات کی پختگی، زبان کی مٹھاس اور فکر کی بلندی نظر آتی تھی۔

بطور براڈکاسٹر، انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کئی یادگار پروگراموں کی میزبانی کی۔ ان کی آواز میں اعتماد، لہجے میں شائستگی اور اندازِ گفتگو میں وقار تھا۔ وہ سامعین و ناظرین کے دلوں میں اپنی نرم گفتاری اور علم دوستی سے گھر کر لیتے تھے۔

زاہد مختار ایک بااصول، سادہ مزاج، علم دوست اور درد مند انسان تھے۔ وہ شہرت کے متلاشی نہیں تھے، بلکہ خدمت، خلوص اور سچائی کو اپنی زندگی کا مشن بنائے ہوئے تھے۔ ان کی مجلس علم و ادب سے بھرپور ہوتی، جہاں نوجوان قلمکاروں کی حوصلہ افزائی ان کا خاص مقصد ہوتا تھا
زاہد مختار کے انتقال پر علمی، ادبی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے۔ ممتاز ادیبوں، صحافیوں، اساتذہ اور براڈکاسٹرز نے کہا کہ زاہد مختار کا جانا ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ ان چند گنے چنے افراد میں شامل تھے جنہوں نے نہ صرف اردو زبان کی خدمت کی بلکہ نئی نسل کو اس سے جوڑنے کی مخلصانہ کوششیں کیں۔ زاہد مختار کی وفات اردو زبان و ادب کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ وہ ایک ایسے چراغ تھے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتے رہے۔ ان کی زندگی، ان کا کردار، ان کا علم، ان کی تحریریں والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

