ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جموں کشمیر میں اختیارات کی کھینچا تانی، منتخب حکومت اور راج بھون آمنے سامنے - OMAR ABDULLAH MANOJ SINHA CONFLICT

جموں و کشمیر میں نئی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان اختیارات کے تعین پر پہلا بڑا سیاسی تنازع پیدا ہو گیا۔

افسران کے تبادلوں کے بعد جموں کشمیر میں اختیارات پر حکومت اور راج بھون آمنے سامنے
افسران کے تبادلوں کے بعد جموں کشمیر میں اختیارات پر حکومت اور راج بھون آمنے سامنے (فائل فوٹو: اے این آئی)
author img

By Moazum Mohammad

Published : April 7, 2025 at 7:09 PM IST

4 Min Read

سرینگر: وادی کشمیر میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی جہاں سرسوں کے لہلاتے کھیت اور رنگ برنگی گل لالہ جنت بے نظر کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں، وہیں اس بیچ سیاسی منظرنامے پر ایک نیا تنازع بھی سر اٹھا رہا ہے، جس میں جموں و کشمیر کی منتخب حکومت اور راج بھون پہلی بار آمنے سامنے نظر آ رہے ہیں۔

دفعہ 370 کی منسوخی اور سابق ریاست کو دو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کیے جانے کے چھ برس بعد گزشتہ برس جموں و کشمیر کی پہلی اسمبلی تشکیل پائی اور نیشنل کانفرنس (این سی) کی قیادت میں حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ تاہم صرف چھ ماہ بعد ہی حکومت اور راج بھون کے درمیان اختیارات کی حدبندی پر پیچیدگیاں سامنے آ گئی ہیں۔

جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس (JKAS) سے تعلق رکھنے والے 48 مڈل رینک افسران کے تبادلے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو نظرانداز کرتے ہوئے کیے گئے، جسے منتخب حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں حکمران اتحاد نے مرکز کو انتباہ دیا ہے کہ وہ انہیں ’’سائیڈ لائن کرنے کی کوشش‘‘ نہ کرے۔

اس تنازعے کی جڑ، جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 بتائی جا رہی ہے، جس کی شق 53(2) کے تحت ایل جی کو بعض اختیارات از خود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ ماڈل پڈوچیری کی طرز پر بنایا گیا ہے، جہاں قانون ساز اسمبلی کے اختیارات محدود ہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی کا کہنا ہے کہ منتخب حکومت ایکٹ کی حدود سے واقف ہے، لیکن کاروباری قواعد (بزنس رولز) کی عدم موجودگی اصل مسئلہ ہے۔ اُن کے مطابق: ’’ہم بھی چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے تحت طے شدہ قواعد پر عمل ہو۔‘‘

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تنازعہ اُن کاروباری قواعد کی منظوری کے انتظار میں ہے جو اختیارات کی حدبندی طے کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کابینہ نے یہ قواعد منظور کیے، جس میں وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کے دائرہ کار کو واضح کیا گیا ہے۔

اکتوبر 2024 میں حکومت سازی سے قبل تبادلوں سمیت متعدد اختیارات ایل جی کے پاس تھے، لیکن جولائی 2024 کی ترمیم نے ایل جی کو مالی معاملات میں بھی فیصلہ سازی کا اختیار دے دیا، جس میں آل انڈیا سروسز کے تبادلے، پولیس اور عدالتی تقرریاں شامل ہیں۔ فروری 2024 میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ہوم سیکریٹری کی تقرری کا اختیار بھی مرکز کو منتقل کر دیا گیا۔ تاہم ماہر آئین سید ریاض خاور کا کہنا ہے کہ ری آرگنائزیشن ایکٹ میں ایل جی کو دیے گئے اختیارات قطعی نہیں اور UT حکومت کے بنائے گئے کاروباری قواعد اس حدبندی کو واضح کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آل انڈیا سروسز (IAS) کی حد تک اختیارات واضح ہیں، لیکن JKAS کے حوالے سے خاموشی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ منتخب حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سید خاور نے مزید کہا: ’’انتخابات سے پہلے بنائے گئے قواعد میں تمام اختیارات ایل جی کو دیے گئے تھے، لیکن اب جب منتخب حکومت موجود ہے، ایل جی اُن فیصلوں کو مسترد نہیں کر سکتے۔‘‘

ذرائع کے مطابق، ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سوا تمام شعبوں میں یو ٹی حکومت نے اپنے قواعد طے کر لیے ہیں، جن میں وقف بورڈ بھی شامل ہے۔ تاہم مرکز سے منظوری میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ مکمل اتفاقِ رائے موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کچھ ٹھیک نہیں: ایل جی منوج سنہا کی جانب سے افسروں کے تبادلوں پر کانگریس کا رد عمل

جموں کشمیر میں انتظامی تبدیلیاں: 48افسران کا تبادلہ

سرینگر: وادی کشمیر میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی جہاں سرسوں کے لہلاتے کھیت اور رنگ برنگی گل لالہ جنت بے نظر کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں، وہیں اس بیچ سیاسی منظرنامے پر ایک نیا تنازع بھی سر اٹھا رہا ہے، جس میں جموں و کشمیر کی منتخب حکومت اور راج بھون پہلی بار آمنے سامنے نظر آ رہے ہیں۔

دفعہ 370 کی منسوخی اور سابق ریاست کو دو یونین ٹیریٹری میں تبدیل کیے جانے کے چھ برس بعد گزشتہ برس جموں و کشمیر کی پہلی اسمبلی تشکیل پائی اور نیشنل کانفرنس (این سی) کی قیادت میں حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ تاہم صرف چھ ماہ بعد ہی حکومت اور راج بھون کے درمیان اختیارات کی حدبندی پر پیچیدگیاں سامنے آ گئی ہیں۔

جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس (JKAS) سے تعلق رکھنے والے 48 مڈل رینک افسران کے تبادلے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو نظرانداز کرتے ہوئے کیے گئے، جسے منتخب حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں حکمران اتحاد نے مرکز کو انتباہ دیا ہے کہ وہ انہیں ’’سائیڈ لائن کرنے کی کوشش‘‘ نہ کرے۔

اس تنازعے کی جڑ، جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 بتائی جا رہی ہے، جس کی شق 53(2) کے تحت ایل جی کو بعض اختیارات از خود استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ یہ ماڈل پڈوچیری کی طرز پر بنایا گیا ہے، جہاں قانون ساز اسمبلی کے اختیارات محدود ہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی کا کہنا ہے کہ منتخب حکومت ایکٹ کی حدود سے واقف ہے، لیکن کاروباری قواعد (بزنس رولز) کی عدم موجودگی اصل مسئلہ ہے۔ اُن کے مطابق: ’’ہم بھی چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے تحت طے شدہ قواعد پر عمل ہو۔‘‘

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تنازعہ اُن کاروباری قواعد کی منظوری کے انتظار میں ہے جو اختیارات کی حدبندی طے کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کابینہ نے یہ قواعد منظور کیے، جس میں وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کے دائرہ کار کو واضح کیا گیا ہے۔

اکتوبر 2024 میں حکومت سازی سے قبل تبادلوں سمیت متعدد اختیارات ایل جی کے پاس تھے، لیکن جولائی 2024 کی ترمیم نے ایل جی کو مالی معاملات میں بھی فیصلہ سازی کا اختیار دے دیا، جس میں آل انڈیا سروسز کے تبادلے، پولیس اور عدالتی تقرریاں شامل ہیں۔ فروری 2024 میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ہوم سیکریٹری کی تقرری کا اختیار بھی مرکز کو منتقل کر دیا گیا۔ تاہم ماہر آئین سید ریاض خاور کا کہنا ہے کہ ری آرگنائزیشن ایکٹ میں ایل جی کو دیے گئے اختیارات قطعی نہیں اور UT حکومت کے بنائے گئے کاروباری قواعد اس حدبندی کو واضح کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آل انڈیا سروسز (IAS) کی حد تک اختیارات واضح ہیں، لیکن JKAS کے حوالے سے خاموشی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ منتخب حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ سید خاور نے مزید کہا: ’’انتخابات سے پہلے بنائے گئے قواعد میں تمام اختیارات ایل جی کو دیے گئے تھے، لیکن اب جب منتخب حکومت موجود ہے، ایل جی اُن فیصلوں کو مسترد نہیں کر سکتے۔‘‘

ذرائع کے مطابق، ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سوا تمام شعبوں میں یو ٹی حکومت نے اپنے قواعد طے کر لیے ہیں، جن میں وقف بورڈ بھی شامل ہے۔ تاہم مرکز سے منظوری میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ مکمل اتفاقِ رائے موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کچھ ٹھیک نہیں: ایل جی منوج سنہا کی جانب سے افسروں کے تبادلوں پر کانگریس کا رد عمل

جموں کشمیر میں انتظامی تبدیلیاں: 48افسران کا تبادلہ

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.