ETV Bharat / jammu-and-kashmir

رام بن سیلاب، قدرتی آفت یا انسانی غفلت؟ شاہراہ کی کمزوریاں بے نقاب - RAMBAN NH44 LANDSLIDE

رام بن میں بارش اور بادل پھٹنے سے شاہراہ کی کمزوریاں بے نقاب، ماہرین کا ناقص منصوبہ بندی پر انتباہ۔

ا
رام بن سانحہ میں اب تک تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں (اے این آئی)
author img

By ETV Bharat Jammu & Kashmir Team

Published : April 21, 2025 at 8:06 PM IST

5 Min Read

جموں (عامر تانترے) : جموں و کشمیر کے لئے شہہ رگ مانی جانے والی سرینگر - جموں قومی شاہراہ (NH44) ایک بار پھر شدید بارش اور مٹی کے تودے گرآنے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، جس نے اس شاہراہ کی بنیادی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے۔ 19 اور 20 اپریل کی درمیانی شب موسلا دھار بارشوں اور بادل پھٹنے کی وجہ سے زمین کھسکنے کے سبب صوبہ جموں کے رام بن ضلع میں کرول سے ماروگ تک قومی شاہراہ کا تقریباً ایک کلومیٹر کا حصہ ڈہہ گیا، علاوہ ازیں شاہراہ کے آس پاس کے علاقوں میں بھی شدید تباہی ہوئی اور اب تک تقریبا تین جانیں تلف ہو چکی ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ بے ترتیبی سے کی جانے والی شاہراہ کی چوڑائی، جگرافیائی نوعیت کو نظر انداز کرنا، پانی کے نکاسی کا ناقص نظام، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دیگر عوامل نے قدرتی تباہی کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر پرشوتم کمار نے بتایا کہ تقریباً 10 کلومیٹر کا حصہ متاثر ہوا ہے جسے مکمل بحال ہونے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ فی الحال ترجیحی بنیادوں پر سڑک کو کم از کم یکطرفہ ٹریفک کے لئے بحال کرنے اور ملبے وغیرہ میں دبی اور پھنسی گاڑیوں کو نکالنے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور ابھی تک مالی نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ فی الحال ترجیح ٹریفک کی بحالی اور پھنسی گاڑیوں کو نکالنے پر ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 19 سے 21 اپریل کی صبح تک رام بن میں 117 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ ہوئی جن میں سب سے زیادہ بارش 19 اور 20 اپریل کی درمیانی شب ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ غیرمعمولی بارش اس بات کی علامت ہے کہ زمین پر موجود کمزوریاں کس طرح ابھر کر سامنے آ رہی ہیں، جہاں سبز جنگلات کی جگہ کنکریٹ کے جنگل تعمیر کیے جا رہے ہیں اور سڑک کی تعمیرات میں علاقوں کی تاریخی زمینی ساخت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

جموں یونیورسٹی کے ماہر ارضیات، ڈاکٹر یُدھبیر سنگھ، جو خود اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا: ’’یہ سانحہ قدرتی عوامل اور انسانی غلطیوں کا مرکب ہے۔ تاریخ کو نظر انداز کر کے ناقص منصوبہ بندی اور ناتجربہ کار ٹھیکیداروں کو کام سونپنا اس نقصان کے سبب بنے۔‘‘ انہوں نے ضلع کے معروف کیلا موڑ جیسے علاقوں کی بھی مثال پیش کی، جو ماضی میں بھی لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے نشاندہی کی کہ رام بن میں قومی شاہراہ کی کشادگی اور ازسرنو تعمیر میں علاقے کی تاریخ اور پانی کے فطری نکاسی کو نظر انداز کیا گیا۔

ڈاکٹر سنگھ نے غیرمنظم تعمیرات کے حوالہ سے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’شہروں کی طرف ہجرت سے قدرتی نالے بند ہو گئے ہیں، خاص طور پر کیفٹیریا موڑ کے نزدیک۔ یہاں ٹھیکہ داروں نے کوئی دیرپا منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس علاقے میں دو ناکام سرنگیں بھی بنائی گئیں، جس نے علاقے کو مزید غیرمستحکم کر دیا ہے۔‘‘ سنگھ نے اس واقعے کو ایک وارننگ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’اتنی بڑی تباہی کے باوجود اگر جانی نقصان کم ہوا ہے تو یہ ایک موقع ہے کہ ہم سبق سیکھیں اور اپنی غلطیوں کو درست کریں۔‘‘

رام بن سانحہ پر عوامی نمائندوں سمیت سماجی و سیاسی کارکنان نے بھی ’’ناقابل اور ناتجربہ کار‘‘ ٹھیکہ داروں کو کام دینے اور منصوبہ بندی میں کوتاہیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے حکومت کی سخت تنقید کی۔ ایم ایل اے ڈوڈہ معراج ملک نے سوشل میڈیا پر NHAI کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر اعظم کے دفتر سے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ایم ایل اے ڈوڈہ نے لکھا: ’’رام بن کی تباہی صرف قدرتی نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی، پانی کی ناقص نکاسی اور بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ تجربہ کار ٹھیکیداروں کے بجائے انجان افراد کو منصوبے دیے گئے۔ برسوں بعد بھی رام بن میں مناسب ڈرینج سسٹم موجود نہیں۔ این ایچ اے آئی کی ناقص کارکردگی اب سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ یہ حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔‘‘

دوسری جانب، بھارتی فوج نے فوری امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ فوجی اہلکاروں نے قریبی علاقوں میں پھنسے افراد کو خوراک، پناہ اور طبی امداد فراہم کی۔ پی آر او دفاع لیفٹیننٹ کرنل سنیل بھرتوال کے مطابق ’’بادل پھٹنے اور شدید بارش کے بعد، بھارتی فوج نے فوری ریلیف اور بحالی کی کارروائیاں شروع کیں۔ سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر فوج نے صورتحال کا جائزہ لے کر فوری امداد فراہم کی۔

انہوں نے بتایا کہ کہ بانہال، کراچیال، ڈگڈول، میترا اور چندر کوٹ سے کوئیک ری ایکشن ٹیمیں بھیجی گئیں، ان کے مطابق ’’فوجی اہلکاروں نے درماندہ مسافروں کو چائے، گرم کھانا، عارضی پناہ گاہ اور طبی امداد فراہم کی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سانحہ حکومت کے لیے ایک سخت تنبیہ بھی ہے کہ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ لیا گیا تو قدرت کی قیمت بہت بھاری ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:

  1. سرینگر جموں شاہراہ دوسرے روز بھی ٹریفک کے لیے بند
  2. سیلاب متاثرہ رام بن کے لیے معاوضہ: عمر عبداللہ نے کیا مرکز سے رجوع

جموں (عامر تانترے) : جموں و کشمیر کے لئے شہہ رگ مانی جانے والی سرینگر - جموں قومی شاہراہ (NH44) ایک بار پھر شدید بارش اور مٹی کے تودے گرآنے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، جس نے اس شاہراہ کی بنیادی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے۔ 19 اور 20 اپریل کی درمیانی شب موسلا دھار بارشوں اور بادل پھٹنے کی وجہ سے زمین کھسکنے کے سبب صوبہ جموں کے رام بن ضلع میں کرول سے ماروگ تک قومی شاہراہ کا تقریباً ایک کلومیٹر کا حصہ ڈہہ گیا، علاوہ ازیں شاہراہ کے آس پاس کے علاقوں میں بھی شدید تباہی ہوئی اور اب تک تقریبا تین جانیں تلف ہو چکی ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ بے ترتیبی سے کی جانے والی شاہراہ کی چوڑائی، جگرافیائی نوعیت کو نظر انداز کرنا، پانی کے نکاسی کا ناقص نظام، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور دیگر عوامل نے قدرتی تباہی کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر پرشوتم کمار نے بتایا کہ تقریباً 10 کلومیٹر کا حصہ متاثر ہوا ہے جسے مکمل بحال ہونے میں دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ فی الحال ترجیحی بنیادوں پر سڑک کو کم از کم یکطرفہ ٹریفک کے لئے بحال کرنے اور ملبے وغیرہ میں دبی اور پھنسی گاڑیوں کو نکالنے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور ابھی تک مالی نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ فی الحال ترجیح ٹریفک کی بحالی اور پھنسی گاڑیوں کو نکالنے پر ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 19 سے 21 اپریل کی صبح تک رام بن میں 117 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ ہوئی جن میں سب سے زیادہ بارش 19 اور 20 اپریل کی درمیانی شب ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ غیرمعمولی بارش اس بات کی علامت ہے کہ زمین پر موجود کمزوریاں کس طرح ابھر کر سامنے آ رہی ہیں، جہاں سبز جنگلات کی جگہ کنکریٹ کے جنگل تعمیر کیے جا رہے ہیں اور سڑک کی تعمیرات میں علاقوں کی تاریخی زمینی ساخت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

جموں یونیورسٹی کے ماہر ارضیات، ڈاکٹر یُدھبیر سنگھ، جو خود اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا: ’’یہ سانحہ قدرتی عوامل اور انسانی غلطیوں کا مرکب ہے۔ تاریخ کو نظر انداز کر کے ناقص منصوبہ بندی اور ناتجربہ کار ٹھیکیداروں کو کام سونپنا اس نقصان کے سبب بنے۔‘‘ انہوں نے ضلع کے معروف کیلا موڑ جیسے علاقوں کی بھی مثال پیش کی، جو ماضی میں بھی لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے نشاندہی کی کہ رام بن میں قومی شاہراہ کی کشادگی اور ازسرنو تعمیر میں علاقے کی تاریخ اور پانی کے فطری نکاسی کو نظر انداز کیا گیا۔

ڈاکٹر سنگھ نے غیرمنظم تعمیرات کے حوالہ سے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’شہروں کی طرف ہجرت سے قدرتی نالے بند ہو گئے ہیں، خاص طور پر کیفٹیریا موڑ کے نزدیک۔ یہاں ٹھیکہ داروں نے کوئی دیرپا منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس علاقے میں دو ناکام سرنگیں بھی بنائی گئیں، جس نے علاقے کو مزید غیرمستحکم کر دیا ہے۔‘‘ سنگھ نے اس واقعے کو ایک وارننگ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’اتنی بڑی تباہی کے باوجود اگر جانی نقصان کم ہوا ہے تو یہ ایک موقع ہے کہ ہم سبق سیکھیں اور اپنی غلطیوں کو درست کریں۔‘‘

رام بن سانحہ پر عوامی نمائندوں سمیت سماجی و سیاسی کارکنان نے بھی ’’ناقابل اور ناتجربہ کار‘‘ ٹھیکہ داروں کو کام دینے اور منصوبہ بندی میں کوتاہیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے حکومت کی سخت تنقید کی۔ ایم ایل اے ڈوڈہ معراج ملک نے سوشل میڈیا پر NHAI کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر اعظم کے دفتر سے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ایم ایل اے ڈوڈہ نے لکھا: ’’رام بن کی تباہی صرف قدرتی نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی، پانی کی ناقص نکاسی اور بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ تجربہ کار ٹھیکیداروں کے بجائے انجان افراد کو منصوبے دیے گئے۔ برسوں بعد بھی رام بن میں مناسب ڈرینج سسٹم موجود نہیں۔ این ایچ اے آئی کی ناقص کارکردگی اب سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ یہ حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔‘‘

دوسری جانب، بھارتی فوج نے فوری امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ فوجی اہلکاروں نے قریبی علاقوں میں پھنسے افراد کو خوراک، پناہ اور طبی امداد فراہم کی۔ پی آر او دفاع لیفٹیننٹ کرنل سنیل بھرتوال کے مطابق ’’بادل پھٹنے اور شدید بارش کے بعد، بھارتی فوج نے فوری ریلیف اور بحالی کی کارروائیاں شروع کیں۔ سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر فوج نے صورتحال کا جائزہ لے کر فوری امداد فراہم کی۔

انہوں نے بتایا کہ کہ بانہال، کراچیال، ڈگڈول، میترا اور چندر کوٹ سے کوئیک ری ایکشن ٹیمیں بھیجی گئیں، ان کے مطابق ’’فوجی اہلکاروں نے درماندہ مسافروں کو چائے، گرم کھانا، عارضی پناہ گاہ اور طبی امداد فراہم کی۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سانحہ حکومت کے لیے ایک سخت تنبیہ بھی ہے کہ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ لیا گیا تو قدرت کی قیمت بہت بھاری ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:

  1. سرینگر جموں شاہراہ دوسرے روز بھی ٹریفک کے لیے بند
  2. سیلاب متاثرہ رام بن کے لیے معاوضہ: عمر عبداللہ نے کیا مرکز سے رجوع
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.